Tuesday 3 January 2012

اپنے پیروں پر کلہاڑی


اپنے پیروں پر کلہاڑی
بحیثیت ایک پاکستانی ہم اپنے ملک کی اقوام عالم میں حیثیت اور عالم اسلام میں اس کی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہیں
اور ہماری ترقی میں ہی اُمّہ کی ترقی پوشیدہ ہے اور یہ بات 
روز روشن کی طرح سب پر عیاں ہے


تحریر :۔  مسعود نبی خان











مشاہرین تحریک پاکستان کے قلوب میں اس خطے کے مسلمانوں کو اتنا درد بسا ہوا تھا کہ انہوں نے مسلمانان برصغیر کی تہذیبی و تعلیمی تمدن کی خاطر اپنا سب کچھ دائو پر لگا دیا ، جیسے کہ سر سید احمد خان ، ان کی اس خطے کے مسلمانوں کے لئے خدمات کا فی زمانہ کون معترف نہیں ہے مگر ایک زمانہ تھا کہ ان کی تحریروں سے علماء کو الحاد کی بو آتی تھی اور انہیں فرنگیوں کا ایجنٹ سمجھ کر کافر تک قرار دے دیا گیا تھا، مگر انہوں نے مسلمانان پاک و ہند کی تہذیبی او رتعلیمی ارتقاء کے لئے اپنا مشن جاری رکھا اور مسلمانوں میں وہ شعور اجاگر کیا جس کی اس وقت شدید ضرورت تھی۔ سر سید احمد خان اپنی ایک تحریر میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ’’ حکومت چاہے کیسی بھی ہو عوام کوباشعور ہونا چاہیئے تو ہر طرح کی حکومت بالکل صحیح چلے گی ، حکومت اگر خراب ہو اور عوام باشعو ر تو وہ حکومت کو صحیح راستے پر لے آئیں گے ، مگر عوام کے بے شعور ہونے کی صورت میں حکومت چاہے کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو عوام اسے گھسیٹ کر نیچے اپنے معیار تک لے آئیں گے‘‘۔
سر سید کے افکار کی ہمیں اپنی نجی زندگیوں میں نفاذ کی آج بھی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی کہ پہلے تھی بلکہ یوں کہنا چاہیئے کہ آج ہمیں ان کی زیادہ ضرورت ہے کیونکہ من حیث القوم اب ہم ایک آزاد قوم ہیں اور اپنے اچھے برے کے اب خود ذمہ دار ہیں ، ہم اپنی کسی بھی کوتاہی کا ذمہ دار کسی دوسرے کو نہیں ٹہرا سکتے ، اور جب ہم ایسا نہیں کرسکتے، تو اپنے کسی بھی عمل سے اگر ہمیں فوراً یا دوررس نقصانات کا اندیشہ ہو تو ہمیں ایسے اقدامات نہیں کرنے چاہئیں ورنہ ہم آنے والی نسلوں کو کیا منہ دکھائیں گے؟، یا وہ ہمیں کس طرح یاد رکھیں یہ اب ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے ،ہم ایسے علماء کی طرح کیوں بنیں جنہوں نے جذبات میں بہہ کر قوم کو ترقی کا صحیح راستہ دکھانے والوں کی راہوں میں کانٹے بچھائے آج وہ علماء یا ان کا نام بھی تاریخ میں نہیں ہے مگر قوم کے ان مصلح افراد کا نام آج بھی تاریخ میں جگمگا رہا ہے جنہوں نے قوم کو اعتدال پسندی اور تعلیمی و تہذیبی تمدن سے آشنا کیا ۔
بحیثیت ایک پاکستانی ہم اپنے ملک کی اقوام عالم میں حیثیت اور عالم اسلام میں اس کی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہیں ، ہماری ترقی میں ہی اُمّہ کی ترقی پوشیدہ ہے اور یہ بات روز روشن کی طرح سب پر عیاں ہے، ہماری آزادی کو ساٹھ سال سے زائد عرصہ گذر چکا ہے  مگر ہم نے بحیثیت ایک قوم اتنی معاشی ترقی نہیں کی جتنی کہ کر لینی چاہیئے تھی اور اس کی وجہ بھی ہم سب ہی جانتے ہیں کہ اس میں قصور صرف ہماری غیردانشمندی کا رہا ہے، عصر حاضر بھی ہم سے اسی بات کا متقاضی ہے کہ ہم اپنے جذبات اور احساسات کے اظہار میں اعتدال سے کام لیں اورہرگز بھی کوئی ایسا عمل نہ کریں جو ہماری معاشیات اور اقتصادیات پر ضرب کاری کا باعث ہو اور ہمیں ترقی کے عمل سے کئی دہائیاں پیچھے پھینک دے ۔
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اقوام عالم میں ترقی کا معیار بدل گیا ہے جو ریاست اب جتنی اقتصادی طور پر طاقتور ہوگی وہ اتنی ہی کامیاب اور دنیا پر راج کرنے والی ہوگی ، اور اقتصادی ترقی کے لئے امن عامہ ایک بنیادی ضرورت ہے جس کے لئے قوم کا معتدل مزاج ہونا انتہائی ضروری ہے ، آتش مزاج لوگ جس طرح معاشرے کے نا پسندیدہ ہوتے ہیں اور لوگ ایسے غضبناک اور غصہ ور افراد سے میل جول اور روابط رکھنا پسند نہیں کرتے ، اسی طرح اقوام عالم بھی اب کسی آتش مزاج قوم سے روابط رکھنا پسند نہیں کرتیں ، اور اب جبکہ دنیا ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے معاشی ترقی باہمی روابط سے ہی ممکن ہے ۔
پچھلے دنو ں اسرائیل نے فلسطینیوں کے علاقے غزہ پر حملے کئے ، کون سا ایسا انسان تھا جس کے دل میں غزہ کے رہائشیوں کے لئے ہمدردی کے جذبات نہیں ہوں گے، مگر کسی نے بھی اس غصّہ کے عالم میں اپنے قومی ورثہ اور املاک کو نقصان نہیں پہنچایا ، اور نہ ہی  کوئی ایسا عمل کیا جس سے اس کی معاشی ترقی کو ٹھیس پہنچے ، بحیثیت ایک قوم کے ہم بھی اللہ کا شکر ہے کہ تمدنی ارتقاء کی اس منزل پر پہنچ چکے ہیں کہ اس قسم کی صورتحال میں بالغ نظری کا ثبوت دیتے ہیں مگر ہم ہی میں سے چند عناصر ایسے ہیں جن کی اصلاح کی ضرورت ہنوز باقی ہے ، ایسے افراد اور  گروہ اپنے جذبات و احساسات پر کسی قسم کا کوئی کنٹرول نہیں رکھتے اور اپنے قول و عمل سے مسلسل ناسمجھی کا مظاہرہ کرکے پوری قوم کے لئے مشکلات کا سبب بنتے ہیں ،ایسے افراد دنیا میں ہوئے کسی بھی واقعے کو بنیاد بنا کر اپنے مخصوص فائدے کے لئے پوری قوم کے مستقبل سے کھیلنے میں دیر نہیں لگاتے اور جذباتی نعروں اور اقدامات سے ملک و قوم کے لئے ضرر رسانی کا ذریعہ بنتے ہیں اسرائیل کے فلسطینی بھائیوں سے حالیہ تنازعے میں بھی ایسے عناصر نے اپنا کھیل کھیلنا شرو ع کردیا ، اور پوری شد و مد سے ایسی حرکتیں شروع کردیں جن سے فوری اور دوررس دونوں ہی قسم کے منفی نتائج آنا شروع ہوگئے ، گویا اپنے پیروں پر خود ہی کلہاڑی مارنے کے مترادف کام کیا گیا ۔
جیسا کہ ہم سب ہی جانتے ہیں کہ اب وہ زمانہ نہیں ہے کہ کسی قوم کو زیر کرنے کے لئے میدان جنگ کا سہارہ  لیا جائے بلکہ آج کل اقتصادی طور پر جس قوم کو پیچھے دھکیل دیا جائے وہ زیر ہوجاتی ہے ، ان مذکورہ عناصر کی وجہ سے ہمارے ملک میں ایک تو ویسے ہی بیرونی سرمایہ کاری بہت کم آتی ہے کیونکہ دنیا یہ سمجھتی ہے کہ ہمارے ملک میں صنعتی امن بہت کم ہے اور اس پر بھی اگر کوئی بین الاقوامی کمپنی ہمارے ملک میں سرمایہ کاری کربیٹھتی ہے تو یہ ناسمجھ عناصر فوراً ہی اس پر کوئی سامراجی یا صیہونی ہونے کا لیبل چپکا کر اسے یہاں سے اپنا بوریا بستر گول کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں ، افسوس ہوتا ہے ایسے افراد پر کہ جس ڈال پر بیٹھتے ہیں اسے ہی کاٹ کر پھینکنے کے درپے ہوتے ہیں ، سوچنے کا مقام ہے کہ ان سرمایہ کار بین الاقوامی کمپنیوں کو ہمارے ملک میں  کوئی ہیرے جواہر لگے ہوئے یا لعل ٹکے ہوئے نظر نہیں آتے ہیں ، ان کو حکومتیں بڑی منت سماجت کے بعد اپنے ملک میں سرمایہ کاری پر راضی کرتی ہیں تاکہ اپنے ملک کی اقتصادیات کے ساتھ ساتھ اپنی قوم کا معیار زندگی بلند کرسکیں اور ملک میں پیدا کی ہوئی چیزوں سے نہ صرف زر مبادلہ بچائیں بلکہ ان نت نئی فیکٹریوں سے روز گار کے زیادہ سے زیادہ مواقع  پیدا کرسکیں ، ورنہ دنیا میں ہمارے علاوہ دیگر ایسے ممالک کی کمی نہیں ہے جہاں ہم سے بھی بہت زیادہ سستی لیبر موجود ہے ، اور جہاں ہمارے ملک کی نسبت بہت زیادہ صنعتی و تجارتی امن ہے، نہ وہاں کے لوگ  ذرا ذراسی بات پر چراغ پا ہوکراپنے ملک کی تنصیبات کو نقصان پہنچاتے ہیں اور نہ اپنے ملک میں بنی کسی چیز پر صیہونی یا سامراجی کا ٹھپہ لگا کر اس کا بائیکاٹ کرتے ہیں، پھر بھلا ایسی صورتحال میں بڑی بڑی سرمایہ کار کمپنیاں بجائے ہمارے ملک کے ان ممالک میں سرمایہ کاری کیوں نہ کریں ۔
قسمت کی یاوری یا ہماری پچھلی کئی حکومتوں کی بالغ نظری کہ انہوں نے ملک میں اقتصادی ترقی کے لئے بہترین کام کرکے ، دنیا کی کئی بڑی بڑی سرمایہ کار کمپنیوں کو اپنے ملک میں سرمایہ کاری پر راضی کیا ، اب یہ ہمارا فرض بنتا ہے اپنے ملک میں کام کرنے والی ان کمپنیوں کو بھر پور طریقے سے کام کرنے دیں جو درحقیقت ہماری اپنی ہی فلاح اور اقتصادی ترقی کا راستہ ہے، ساتھ ہی ساتھ ہمیں چاہیئے کہ اپنے ہی ملک میں کام کرنے والی غیر ملکی کمپنیوں کی مصنوعات کا بائیکا ٹ کرنے اور ان پر صیہونی و سامراجی لیبل چسپاں کرنے والے عناصر سے کہیں کہ وہ کس منہ سے بائیکا ٹ کی بات کرتے ہیں ، جہاں جہاں ان کے سیاسی  یا سستی شہرت حاصل کرنے کے مواقع ہوتے ہیں وہ ایسی باتیں کرتے ہیں اگر اپنے ملک میں بنی اشیاء صیہونی و سامراجی ہوسکتی ہیں تو پاکستان کو اپنے ایٹمی پروگرام سے دستبردار ہوجانا چاہیئے کہ یہ ایک صیہونی شخص کی ایجاد اور سامراجی ملک کی پیداوار ہے، مواصلات چاہے ٹیلیفون، موبائل، کاروںیا جہازوں کی ہو یا پھر ریڈیو ،ٹی وی یا سیٹلائٹ ٹی وی کی سب سے دست برداری حاصل کرلی جائے کیونکہ ان تمام سہولیات کو فراہم کرنے والی کمپنیاں ہمارے ملک میں بھی صیہونی و سامراجی  پس منظر رکھتی ہیںہمارے پہننے والے کپڑے جن جدید مشینوں پر بنتے ہیں وہ سامراج کی ایجاد ہیں اور ہماری مسجدوں میں بچھے ہوئے قالین، چلتے ہوئے پنکھے اور اے سی سمیت اذان کے لئے استعمال کئے جانے والے لائوڈ اسپیکرز کی ٹیکنالوجی بھی صیہونی و سامراجی ہے، ہر چھپے ہوئے قرآن کی چھپائی کی ٹیکنالوجی صیہونی و سامراجی ہے ۔ کیا ان تمام چیزوں کو جو پاکستانی اپنی محنت سے بناتے ہیں صرف کمپنیوں کے صیہونی و سامراجی پس منظر کی بناء پر متروک کیا جا سکتا ہے، بچوں کے دودھ سے لیکر گھر میں استعمال ہونے والی ہر جدید شئے کی ٹیکنالوجی سمیت ہمارے اپنے کھانے کے لئے آنے والی غیر ملکی گندم اگر صہیونی و سامراجی ہو سکتی ہے تو ایسے تمام عناصر کو ان کا بھی بائیکاٹ کرنا چاہیئے اور اسلام کا نام لیکر دہشت گردی میں مبتلا تمام لوگوں کو صیہونی و سامراجی ٹیکنالوجی پر بنے ہر قسم کے اسلحے کو ترک کردینا چاہیئے ۔
ہمیں اس بات کا ادراک ہونا چاہیئے کہ ایسے عناصر دراصل ہم کو پستی کی طرف دھکیلنے کا کام کررہے ہیں ، اسلام اور مسلمانوں کی ہمدردی کا ڈھونگ رچا کر یہ دماغی طور پر مفلوک الحال افراداپنے دنیاوی فوائد کے لئے سستی شہرت کا حصول چاہتے ہیں چاہے اس کے عوض پوری قوم کو قربانی کا بکرا کیوں نہ بنانا پڑے ۔ ہمیں چاہیئے کہ ایسے افراد کے منہ پر ان سے کہہ دیں کہ کبھی خود پر غور کیا ہے تمارے بچپن سے تمہاری اور تمہارے بچوں کی جان بچانے والے ٹیکوں سمیت میڈیکل سائنس کی ہر ترقی صیہونی و سامراجی پیداوا ر ہے پہلے ان سب کو اپنے اپنی زندگیوں کے خاتمے سے ختم کرو ، پھرتم اپنے ملک اور اپنی قوم کی محنت پر انگلی اٹھانا کہ اس کی ٹیکنالوجی یا اس کی کمپنی صیہونی اور سامراجی ہے اور تم اس کا بائیکاٹ کرتے ہو۔

No comments:

Post a Comment