Monday 9 January 2012

بجلی کیوں نہیں آتی؟ کچھ حقائق،کچھ کڑوے سچ !


بجلی کیوں نہیں آتی؟ کچھ حقائق،کچھ کڑوے سچ  !  
کراچی ائیر پورٹ کے قریبی علاقے بھٹائی آباد سمیت بہت سی آبادیاں مثلاََ بختاور گوٹھ،دھنی بخش گوٹھ،ایوب گوٹھ،رمضان گوٹھ،رشیدی گوٹھ،مغل ہزار گوٹھ،شاہنواز شر گوٹھ اور پہلوان گوٹھ بجلی چوری میں مثالی حیثیت رکھتی ہیں۔یہاں کے باشندے کھلم کھلا کنڈے لگا کر بجلی چوری کرتے ہیں،باقاعدہ کنکشن لگانے کی ہر کوشش کو جبری طور پر ناکام بنا دیتے ہیں،مسلسل نوٹس بھیجے جانے کے باوجود میٹر لگا کر بجلی کو قانونی طور پر استعمال کرنے اور بل دینے پر تیار نہیں ہوتے۔یہاں تک کہ جب ان کی چوری کے نتیجے میں بجلی کا پورا نظام درہم برہم ہوتا ہے ،پی ایم ٹی بار بار اڑتی ہے،کنڈے ٹوٹ کر راہگیروں کی جان کے لئے خطرہ بنتے ہیں تو 
 پھر مجبوراََ ٰیہاں بجلی کی فراہمی بند کردی جاتی ہے

پھر یہی بجلی چور،مظلوم صارفین کا روپ دھار کر سڑکوں پر مظاہرہ 
کرنے لگتے ہیں اور میڈیاکے ذریعے یہ پیغام دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ گویا ان سے زیادتی کی گئی ہے۔یہی نہیں بلکہ اپنا جرم چھپانے کے لئے سیاسی وابستگیوں کی آڑ لیتے ہیں،بجلی چوری کے جرم کو سیاسی الزام قرار دے کرجماعتوں کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں ،بجلی کمپنی کے دفاتر پر حملے کرتے ہیں اور دبائو ڈالتے ہیں۔جب انہیں جواب دیا جاتا ہے کہ آپ کا تو باقاعدہ کنکشن ہی نہیں ہے،میٹر ہی نہیں ہے،آپ تو بجلی چوری کر رہے ہیں،آپ کون سے کنکشن کی بحالی کا مطالبہ لے کر آئے ہیں،آپ کو چاہئے کہ آپ میٹر کی درخواست دے کرکنکشن کے اخراجات کی ادائیگی کریں اور قانونی طور پر بل دے کر بجلی استعمال کریں تو 
پھر یہ لوگ کہتے ہیں کہ ان سے ناجائز رقم طلب کی جارہی ہے۔
معاشرے کی اخلاقی زبوں حالی کی یہ ایک مثال ہماری آنکھیں ھولنے
کے لئے کافی ہونی چاہئے۔چور نہ صرف کھلم کھلا چوری کرتے ہیں بلکہ کمال ڈھٹائی سے مظلوم بن کر سڑکوں پر نکلنے لگے ہیں ۔چوری کسی بھی چیز کی ہو انتہائی غیر اخلاقی اور غیر قانونی فعل ہے لیکن کسی ایک شخص کے مال کی چوری صرف اس ایک شخص کو متاثر کرتی ہے جبکہ بجلی کی چوری نہ صرف بجلی کمپنی کے لئے مالی نقصان اور انتظامی مسائل پیدا کرتی ہے بلکہ ایمانداری سے بل دینے والے اور قانونی طور پر بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو بجلی کی فراہمی سے بھی محروم کر دیتی ہے گویا کہ بجلی چوری کرنے کے عادی یہ افراد اپنی ناعاقبت اندیشی اور جرم پسندی کی ضد میں نہ صرف بجلی کمپنی کو بلکہ کراچی کے تمام شہریوں کو پریشانی اور اذیت میں مبتلا کر رہے ہیںاور لوڈ شیڈنگ کا سبب بن رہے ہیں۔یقیناََ بجلی کی چوری میںکے ای ایس سی کے اندر کی کچھ کالی بھیڑیں بھی شامل ہوں گی لیکن یہ ناعاقبت اندیش غیر قانونی صارف ان کالی بھیڑوں کی نشاندہی کر نے کی بجائے انہیں نہ صرف چھپائے رکھتے ہیں بلکہ ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔جس سے دو   
کروڑ شہریوں کی حق تلفی ہو رہی ہے۔
لوڈ شیڈنگ کے خلاف باتیں تو کی جاتی ہیں اور بلاشبہ اس سلسلے کو ختم بھی ہونا چاہئے
 مگر ایسے مواقع پر بہت سے ایسے حقائق کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے جو لوڈ شیڈنگ کا سبب بنتے ہیں ۔شہر کے بہت سے علاقوں میںکنڈے اور دیگر طریقوں سے بجلی کی چوری نے نہ صرف لوڈ شیڈنگ میں اضافہ کیا ہے بلکہ بجلی چوروں کا بل بھی ان صارفین کو ادا کرنا پڑتا ہے جو بجلی کی چوری نہیں کرتے۔اطلاعات کے مطابق حکومت اسپیشل الیکٹرک سٹی کورٹس قائم کرنے اور بجلی کے چوری کو ناقابل ضمانت جرم میںتبدیل کرنے پر غور کر رہی ہے ۔اس ترمیم پر بہت احتیاط سے کام کرنے کی ضرورت ہے،تاکہ بجلی چوروںکو بچنے کا موقع نہ مل سکے۔کراچی میں بجلی کے شارٹ فال کی مقدار کم وبیش اتنی ہی ہے جتنی مقدار میں بجلی چوری کی جاتی ہے یعنی اگر بجلی کی چوری ختم ہوجائے تو کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی کے پاس شہر کی کل ضرورت پوری کر نے کے لئے آج بھی پوری بجلی موجود ہے۔یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا سامنا کرنا ہم سب کے لئے بے حد ضروری ہے  ورنہ بجلی پیدا کرنے کے جتنے نئے پلانٹ بھی لگا لئے جائیں،بجلی کی کمی بدستور رہے گی۔
سخت سزائوں،بھاری جرمانوں ،بجلی کے کنکشن کا ناقابل چیلنج مستقل ڈس کنکشن اور بے ایمان صارفین کو بجلی کے کنکشن کے لئے ہمیشہ کے لئے نا اہل قرار دینا ہی بجلی چوری روکنے کا مستقل حل ہے۔بلوں کی عدم ادائیگی کو روکنے کے لئے بھی اسی طرح کے اقدامات کرنا ہوں گے کیونکہ بہت سے صارفین اور اداروں کی طرف کے ای یس سی کے اربوں روپے واجب الادا ہیں اسی وجہ سے اکثر ایندھن کی خریداری میں مشکل پیدا ہوتی ہے جس سے بجلی گھروں کی پیداوار متاثر ہوتی ہے۔اگر یہ سابقہ رقم وصول ہوجائے اور تمام صارف اپنے بل بروقت ادا کرنے لگیں توکے ای ایس سی آسانی سے اپنے بجلی گھروں کو چلانے کے لئے ایندھن کی خریداری کر سکے گی۔سوئی گیس،پی ایس او،واپڈا اور دوسرے اداروں کی واجب الادا رقوم ادا کرے گی۔یہی نہیںبلکہ اس رقم سے بجلی کی تقسیم کے نظام کی ترقی اور صارفین کی شکایات کو بلا تاخیر دور کرنے کے کام میں بہتری لانے جیسے بہت سے مفید کام کئے جاسکتے ہیں۔سب جانتے ہیں کہ کراچی میں بجلی کی تقسیم کا نظام کم وبیش ایک صدی پرانا ہے جس میں وقت کے ساتھ ساتھ پھیلائو تو ہوا لیکن ترقی نہیں ہوئی۔پندرہ ہزار کلومیٹر سے زائد طویل تاروں کے ایک وسیع پھیلائو میں کہیںنہ کہیں خلل یا خرابی پیدا ہونا قدرتی امر ہے خصوصاََ جب کہ نصف صدی تک اس کی بہتری کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔لیکن اس نظام کو صحیح کر نے کا موقع نہیں دیا جارہا۔ایک طرف بلوں کی بھاری رقوم نجی اور سرکاری صارفین کی طرف واجب الاداہیں تو دوسری طرف غیر قانونی کنکشن اوربجلی چوری اس نظام کو درہم برہم کئے ہوئے ہیں ۔تیسری طرف بعض نا عاقبت اندیش نقاد یہ فرض کرنا چاہتے ہیں کہ وہ لندن یا پیرس جیسے ترقی یافتہ شہروں میں رہتے ہیں جہاں بجلی کی تقسیم کے نظام میں خرابی آ ہی نہیں سکتی اور جب کہیں کوئی فیڈر ٹرپ ہوتا ہے ،جمپر یا پی ایم ٹی اڑتا ہے یا کوئی اور مقامی فنی خرابی پیدا ہوتی ہے تو اسے بہانہ قرار دے کر تنقید کا شوق پورا کرتے ہیں ۔اگر وہ سچ مچ چاہتے ہیں کہ کراچی کو بجلی کی ترسیل کی حد تک لندن اور پیرس جتنا ترقی یافتہ بنا دیا جائے تب بھی انہیں کے ای ایس سی کے اسی موقف کی حمایت کرنا ہوگی کہ بجلی چوری بند کی جائے اور بل بر وقت ادا کئے جائیں تاکہ ترسیل کا نظام بہتر بنایا جاسکے۔
دو کروڑ کی آبادی کے شہر کراچی میں بجلی کی طلب پورے ملک کی طلب کے دس فیصد سے زائد ہے۔یہاں گھریلو،تجارتی اور سرکاری صارفین ہی نہیں بلکہ صنعتیں،بندرگاہ،دفاعی تنصیبات اور بہت سے دوسرے ایسے ادارے اور دفاتر بھی ہیں جن کی ایک ساتھ موجودگی کسی اور شہر میں نہیں ہے،اور ان کی مخصوص ضروریات انتہائی اہم اور حساس ہیں ۔کسی ایک موقع پر بجلی کی طلب اور رسد کے اعدادوشمار کچھ بھی ہوںلیکن ان اہم اور حساس مقامات پر بجلی کی مسلسل فراہمی نہایت ضروری ہے ورنہ ملکی مفادات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتاہے چنانچہ ان کنکشنوں کو لوڈ شیڈنگ سے مستثنیٰ رکھا جاتا ہے ۔ اب ستم ملاحظہ کیجئے کہ نقاد حضرات ان سپلائی لائنوں کو وی آئی پی فیڈر قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں۔دوسری طرف اس شہر کی آبادی،آباد کاری اور پھیلائو میں جس رفتار سے اضافہ ہوا ہے اور اب بھی ہو رہاہے،ا س کی نظیر باقی ملک میں نہیں ملتی۔ایسے شہر کو توانائی کی فراہمی کے اعتبارسے اولین ترجیح کی ضرورت رہی ہے،اب بھی ہے اور آئندہ بھی رہے گی لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ کم سے کم دو دہائیوں میں ،یعنی2005ء میں کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی کی نج کاری سے پہلے کے بیس برسوں میں بجلی کی پیداوار بڑھانے کی طرف سرے سے کوئی پیش رفت ہی نہیں ہوئی یعنی صارفین کی تعداد روز بروز بڑھتی گئی لیکن بجلی کی پیداوار اتنی کی اتنی رہی۔ سرکاری ملکیت کے دنوں میں بجلی کی کمی کا محض یہ حل نکالا گیا کہ واپڈا سے باقی ملک کے لئے پیداکی جانے والی بجلی کا کچھ حصہ لے کر کراچی کو دے دیا گیا جب کہ باقی ملک میں بجلی کی صورتحال کراچی سے کہیں زیادہ ابتر ہے لیکن اس کے باوجود طویل عرصے تک کی بے عملی اور عدم کارروائی کے نتیجے میں ابھی تک کراچی کو واپڈا کی طرف سے بجلی کی ایک مخصوص مقدار سپلائی کی جاتی ہے ۔اس پر بھی بہت سے نادان دوست اعتراض اٹھاتے ہیں کہ کراچی کے لئے واپڈا سے بجلی کیوں لیتے ہیں۔یہ مہربان اصل حقائق اور پس منظر جاننا ہی نہیں چاہتے کیونکہ اس سے ان کے سوچے سمجھے یکطرفہ موقف کو زک پہنچتی ہے۔
کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی ستمبر2008 سے نئی انتظامیہ کے تحت کام کر رہی ہے۔سرکاری کنٹرول کے زمانے میں بہت سے زمانہ ساز دوست نما دشمنوں نے بجلی کمپنی سے بے تحاشہ ناجائز مفادات حاصل کئے،اپنے دوستوں اور عزیزوں کو میرٹ کے بغیر ملازمتیں دلوائیں،لاکھوں کروڑوں کے بل معاف کروائے،بجلی چوری کا ایک پورا نظام قائم کر دیا گیا،نقصان بڑھتا گیا اور اربوں روپے سالانہ تک پہنچ گیا،آخر کار شدید مالی نقصان کے پیش نظر اس کمپنی کی نجکاری کا فیصلہ کر لیا گیا۔اس وقت17 ہزار سے زائد کارکن اس سے وابستہ ہیں۔کسی بھی پرائیویٹ ادارے کو چلانے کے لئے یہ فیصلہ کر نا کہ کون کیا کام کرے گا اور اسے کیا تنخواہ دی جائے گی،صرف اور صرف انتظامیہ کا ہی کام ہے۔کبھی کسی نے کاریں،موبائل فون،کمپیوٹر بنانے والی کمپنیوں یا کسی بھی دوسری پرائیویٹ کمپنی کے اعلیٰ یا عام درجے کے اہلکاروں کی تنخواہوں اور الائونس کا ذکر نہیں کیا لیکن یہ ایک انوکھا منظر ہے کہ بعض لوگ کے ای ایس سی کے اہلکاروں کی تنخواہوںپر بحث کرتے رہے ہیں ۔موجودہ انتظامیہ کے آنے کے بعد بہت سے پروفیشنل منیجرز کو شامل کیا گیا تاکہ اسے بہترین خدمات فراہم کرنے والے ادارے میں تبدیل کیا جاسکے لیکن بعض مہربان ان کی کار کردگی دیکھنے کی بجائے اس بحث میں مصروف ہیں کہ کون کس خاندان سے ہے،اس کے  بزرگوں یا رشتے داروں کا کس سیاسی جماعت سے کیا تعلق ہے وغیرہ وغیرہ۔کیا کوئی ایساقانون ہے کہ کسی سیاسی عہدیدار کے اہل خانہ کو کہیں ملازمت نہ دی جائے یا ملازمت کی تمام شرائط پر پورا اترنے کے بعد کسی امیدوار سے یہ پوچھا جائے کہ آیا اس کے خاندان کا کوئی فرد کسی سیاسی جماعت کی حمایت تو نہیں کرتا۔جب تمام شہری انتخابات میں کسی نہ کسی جماعت کو ووٹ ڈالیں گے تو ان کی حمایت بھی کریں گے ۔کیا یہ حمایت انہیں اپنے تمام دوسرے حقوق اور ملازمت حاصل کرنے کے حق سے محروم کر دے گی۔؟
کراچی شاید ملک کا واحد شہر ہے جہاں پرائیویٹ انتظام کے تحت بجلی پیدا کرنے والے پلانٹس کی تعدادمیں تیزی سے اضافہ کیا گیا ہے ۔یہ پلانٹ خود بخود نہیں چلتے بلکہ کسی بھی دوسرے انجن کی طرح انہیں چلانے کے لئے بھی ایندھن کی ضرورت ہوتی ہے مگر ہوا یہ ہے کہ جونہی کے ای ایس سی نے پلانٹس کی تنصیب کے انتظامات مکمل کئے،تو اس کے ساتھ ہی یہاں ایندھن یعنی قدرتی گیس کی فراہمی میں کمی کا مصنوعی مسئلہ پیدا کر دیا گیا ۔پچھلے کم از کم دو برسوں سے کراچی کے بجلی گھر محض ایندھن کی کمی کے باعث اپنی مکمل پیداوار نہیں دے پا رہے۔2008 میں نئی انتظامیہ کے آنے کے بعد حکومت نے بجلی گھر چلانے کے لئے276 میٹرک ملین مکعب فٹ قدرتی گیس کی باقاعدہ اور بلا تعطل فراہمی کی منظوری دی تھی۔کراچی میں بجلی کی مجموعی رسد عمومی طور پر دو ہزار تین سو پچاس میگا واٹ ہے۔اس میں 55فیصد یعنی 1400میگا واٹ کے ای ایس سی اپنے سسٹم سے پیدا کرتیہے جبکہ ضروریات کا45فیصد واپڈا اور پرائیویٹ بجلی گھروں سے حاصل کیا جاتا ہے۔بجلی کی طلب گرمیوں میں2500 میگا واٹ تک پہنچ جاتی ہے اس طرح شارٹ فال 150
میگا واٹ کا رہتا ہے۔ جو گیس کی فراہمی کے مواقع پر بڑھ کر300 سے400 میگا واٹ تک چلا جاتا ہے،بجلی کی پیداوار میں کمی ہونے پر لوڈ شیڈنگ کی جاتی ہے۔اگر قدرتی گیس ضرورت کے مطابق ملتی رہے تو بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں انتہائی حد تک کمی لائی جاسکتی ہے ۔لیکن ایک طرف ضرورت کے مطابق گیس کی فراہمی کا پورا انتظام نہیں کیا جاتا تو دوسری طرف بعض شیخ چلی قسم کے نقاد حضرات ابھی تک گیس کی کمی کی حقیقت کو تسلیم کرنے سے ہی انکاری ہیں اور ابھی تک وہی راگ الاپ رہے ہیں کہ کے ای ایس سی جان بوجھ کر شہر کی ضروریات کے مطابق بجلی فراہم نہیں کرتی۔گیس کے مصنوعی بحران کے پیچھے چند مفاد پرست اور لالچی حلقوں کا ہاتھ ہے جو کراچی کے دو کروڑ سے زائد شہریوں کا حق یعنی قدرتی گیس چھین کر اسے کھاد کے کارخانوں، سی این جی اسٹیشنوں اور  بعض فیکٹریوںمیںقائم بجلی گھروں کو فروخت کر رہے ہیں ۔
کے ای ایس سی کو قدرتی گیس کی ضرورت کے مطابق فراہمی کایہ فیصلہ2008 میں کیا گیاتھا۔تب سے اب تک وفاقی کابینہ کی کمیٹیبرائے اقتصادی رابطہ نے دوبار اس فیصلے کی توثیق کی ہے، سندھ ہائی کورٹ نے سوئی گیس کمپنی کو براہ راست حکم جاری کیا ہے کہ شہر کی بجلی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے مقررہ مقدار میں گیس فراہم کی جائے، اور جب تک بجلی گھروں کی ضرورت کے مطابق گیس کی فراہمی باقاعدہ نہ ہو تب تک کسی اور خریدار کو گیس فروخت نہ کی جائے ۔ حتیٰ کہ عدالت عالیہ نے گیس کمپنی کے سربراہ کو توہین عدالت کا نوٹس تک جاری کیا کہ حکم پر عمل در آمد کیوں نہیں کیا جارہا ۔ گیس کمپنی کے اعلیٰ عہدیدار خود میڈیا کے سامنے اس امر کا اعتراف کرچکے ہیں کہ وہ کے ای ایس سی کو مقررہ مقدار میں قدرتی گیس فراہم کرنے سے ناکام رہے ہیںجس کا خمیازہ شہریوں کو لوڈ شیڈنگ کی صورت میں بھگتنا پڑ تا ہے۔لیکن پھر بھی گیس کی فراہمی بحال نہیں کی گئی۔
نئی انتظامیہ کے آنے کے بعد سے بن قاسم میں کے ای ایس سی کے پرانے بجلی گھروں کو اوور ہالنگ کے ذریعے بہتر بنایا گیا ہے جس سے نہ صرف ان کی کارکردگی میں نئی جان پیدا ہوئی ہے بلکہ ان سے ملنے والی بجلی کی پیداوار میں 50   میگا واٹ کا اضافہ بھی ہوا ہے۔ 560  میگا واٹ کا نیا بجلی گھر بن قاسم پاور پلانٹ ۔II   اپنی تکمیل کے آخری مراحل میں ہے نئی انتظامیہ نے اس پلانٹ کی مشینوں کی خریداری اور تنصیب پر کل 45  کروڑ ڈالر خرچ کئے ہیں جو کہ نجی شعبے میں بجلی گھر کی تعمیر میں اب تک خرچ ہونے والی سب سے بڑی رقم ہے۔ اس پلانٹ کو اگر ضرورت کے مطابق ایندھن یعنی 130  میٹرک ملین مکعب فٹ اضافی قدرتی گیس دستیاب ہوئی تو لوڈ شیڈنگ نہ ہونے کے برابر رہ جائے گی۔ حکومت پاکستان اس پلانٹ کے لئے مطلوبہ گیس کی فراہمی کی منظوری دے چکی ہے۔ لیکن خطرہ یہ ہے کہ جہاں پہلے کے پلانٹس کے لئے منظور شدہ 276  میٹرک ملین مکعب فٹ گیس کو یکطرفہ طور پر گھٹا کر کبھی 180  ، کبھی 150 ، اور کبھی تو محض 70-80  میٹرک ملین مکعب فٹ کردیا جاتا ہے وہاں نئے پلانٹ کے لئے منظور شدہ گیس بھی نہیں دی جائے گی۔ چنانچہ بجلی کی کمی کا معاملہ جوں کا توں رہے گا۔ اس معاملے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔
عام شہری جو تیل اور گیس کی قیمتوں کے فرق اور اس سے بجلی کے نرخ پر پڑنے والے اثرات سے کچھ زیادہ آشنا نہیں ہیں، انہیں گمراہ کرنے کے لئے بعض نادان دوست محض تنقید برائے تنقید کی خاطر یہ ڈھنڈورا پیٹتے رہتے ہیں کہ کے ای ایس سی کو اگر قدرتی گیس ضرورت کے مطابق نہیں ملتی تو اسے تیل سے اپنے پلانٹ چلانے چاہئیں اور اگر ایسا نہیں ہورہا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کمپنی تیل کی رقم بچانے کی خاطر بجلی پیدا نہیں کرتی۔ حالانکہ یہ نقاد حضرات اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایک طرف تو تیل اور گیس کی قیمت میں جو تین سے چار گنا کا فرق ہے وہ فرق کے ای ایس سی اپنی جیب سے ادا نہیں کرتی بلکہ یہ بوجھ صارفین پر پڑتا ہے۔ آسان الفاظ میں گیس کے ذریعے پیدا ہونے والے بجلی کے ایک یونٹ پر جو لاگت آتی ہے وہ تیل کے ذریعے پیدا ہونے والے یونٹ کی نسبت چار گنا کم ہے۔ جس کی بدولت بجلی کے نرخ اس سطح پر رکھے جاتے ہیں کہ عام صارف اسے برداشت کرسکے۔ اگر وہی یونٹ تیل سے پیدا کیا جائے تو لازماً بجلی کے نرخ میں چار گنا اضافہ ہوگا۔ لاگت میں یہ اضافہ کے ای ایس سی خود نہیں ادا کرے گی بلکہ صارفین کو ادا کرنا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ کے ای ایس سی پوری کوشش کرتی ہے کہ تیل کم سے کم جلایا جائے تاکہ نرخ اپنی سطح پر رہیں۔ لیکن نقاد حضرات بدستور یہی فرمائش کرتے رہتے ہیں کہ تیل استعمال کیا جائے۔ دوسرے لفظوں میں یہ نقاد حضرات کے ای ایس سی سے یہ مطالبہ کررہے ہوتے ہیں کہ صارفین کو چار گنا زیادہ نرخوں پر بجلی فروخت کرنے کا اہتمام کیا جائے۔ اب ایسے نادان دوستوں کو کون سمجھائے کہ کرکٹ میچ ، عید اور یوم آزادی پر اگر کے ای ایس سی اضافی تیل جلا کر شہریوں کو ایک سہولت مہیا کرتی ہے تو اس کو سراہنے کے بجائے برا کہنا درست نہیں۔
کے ای ایس سی کے نادان دوستوں میں کچھ مہربان ایسے بھی ہیں جو ہمدردی اور سرپرستی کی آڑ میں اپنا اُلّو سیدھا کرنے میں مصروف ہیں۔ ایسے ہی کچھ مہربانوں نے ایک خود ساختہ شیئر ہولڈر ایسوسی ایشن بنا رکھی ہے ۔ جس کے ارکان کی تعداد نا معلوم ہے، اس کے عہدیدار کب منتخب ہوتے ہیں ، الیکشن کب ہوتے ہیں، کوئی نہیں جانتا۔ یہ مہربان چاہتے ہیں کہ کے ای ایس سی کی سپلائی اور مرمت کے کاموں کے ٹھیکے انہیں دیئے جائیں، نئے کنکشن ان کے حکم پر بانٹے جائیں، ان کے دوستوں عزیزوں کو بڑی بڑی تنخواہوں پر ملازم رکھا جائے اور کمپنی کا تمام عملہ ان کے سامنے ہاتھ باندھے ان کی نظر کرم کا منتظر رہے کیونکہ انہوں نے چند ہزار روپے کے شیئر خرید لئے ہیں ۔ جب ایسا نہیں ہوتا تو وہ الزامات اور ’’انکشافات‘‘ کا ایک بوسیدہ تھیلا بغل میں دبا کر میڈیا کے اداروں کا رخ کرتے ہیں۔ اور اگر کوئی اخبار ان کے من گھڑت افسانے کا کوئی حصہ شائع کردے تو وہ اسے سند کے طور پر فریم کراکے پھر کے ای ایس سی کے دفتر پہنچ جاتے ہیں اور اہلکاروں پر دبائو ڈالتے ہیں کہ ان کی فرمائشیں پوری کی جائیں۔ سرکاری کنٹرول اگر مسائل کا حل ہوتا تو پی آئی اے، ریلوے، واپڈا اور ایسے تمام ادارے آج کامیاب نظر آتے۔ سب سڈی کی رقم کے ای ایس سی کو نہیں ملتی بلکہ یہ حکومت کی طرف سے بجلی کے نرخ کو کم رکھنے کے لئے دی جاتی ہے اور یہ رقم براہ راست صارفین کو جاتی ہے، اس سب سڈی کا ذکر توڑ مروڑ کر پیش کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔
کاپر وائر صرف کراچی میں استعمال ہوتی ہے باقی پورے ملک میں سلور وائر ہے۔ کاپر وائر پر کنڈ الگانا ممکن ہے اسی لئے اسے تبدیل کرنے کی مرحلہ وار کوشش کی جارہی ہے لیکن اس پر طرح طرح کے اعتراض کئے جارہے ہیں۔ جن علاقوں میں چوری زیادہ ہے وہاں لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ تھوڑا سا زیادہ رکھا جاتا ہے تاکہ وہاں کے باشندے بجلی چوری روکنے کے لئے اپنا فرض یاد رکھیں، اس کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یعنی بہتری لانے کی تمام تر کوششیں کی جارہی ہیں لیکن پیشہ ور مہر بان اور نادان دوست قسم کے افراد اس میں اپنا کردار ادا کرنے کے بجائے ذاتی مفاد ڈھونڈنے میں مصروف ہیں۔
چنانچہ صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف کے ای ایس سی کی پرائیویٹ انتظامیہ ہے جو نہ صرف کراچی کے شہریوں کی خدمت کے جذبے کے تحت بلکہ خود اپنی کاروباری کامیابی اور شہرت کی خاطر نقصانات سے تباہ حال اس کمپنی کو فعال اور منافع بخش بنانے کے لئے دن رات  جدو جہد کررہی ہے تو دوسری طرف مراعات حاصل کرنے کے عادی دوست نما دشمنوں اور نادان ہمدردوں کی جانب سے تنقید ، الزامات، فرمائشوں اور دبائو کا ایک انبار ہے جو نہ صرف اس کمپنی کو کام کرنے کے پر امن ماحول کی فراہمی میں رکاوٹ بن رہا ہے بلکہ خود شہریوں کو بلا تعطل بجلی کی فراہمی کا ہدف حاصل کرنے میں بھی تاخیر پیدا کررہا ہے۔کے ای ایس سی کی کامیابی محض ایک کمپنی کی نہیں بلکہ کراچی کے تمام شہریوںکی ترجیح ہونی چاہئے۔ معاشرے کے تمام حصوں کو بلا امتیاز مل بیٹھ کر ان تمام مسائل کا حل نکالنا ہوگا۔ محض الزام تراشی اور یکطرفہ بیانات دینے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔ کامیابی اچانک اور راتوں رات نہیں ملتی بلکہ اس کے لئے مسلسل اور انتھک محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔

No comments:

Post a Comment