Tuesday 3 January 2012

مصنوعی و مصنوعاتی۔ بہتان تراشی و افواہ بازی

مصنوعی و مصنوعاتی۔ بہتان تراشی و افواہ بازی

تحریر :  مسعود نبی خان









مصنوعات کے متعلق بہتان تراشی اور افواہ بازی اب شیوہ بنتاجا رہا ہے ،جو مقامی اور بین الاقوامی دنوں ہی مارکیٹوں میں پھیل رہا ہے،جھوٹ و افترا کا سہارہ لیکرایک منصوبے کے تحت باقاعدہ ہدف بنا کر عوامی آراء کو تبدیل کرنے کا چلن چل نکلا ہے، ان اہداف میں خصوصاًمشہور مصنوعات بنانے والی مختلف کارپوریشنز کی کارکردگی اور مالیاتی معاملات ہوتے ہیں، اس کے علاوہ سیاسی بازی گر اپنے مفاد کے لئے مذہبی و سیاسی افواہوں کا بازار گرم کرتے ہیں جسکا ھدف بھی عموماً مشہور مصنوعات میں سے کوئی ہوتا ہے تاکہ اس کی عوامی مقبولیت کو کم کرکے اسے نقصان پہنچایا جاسکے۔
اس کا عمومی طریقہء کار تو یہ ہوتا ہے کہ کسی بھی مشہور برانڈ کے متعلق توھین آمیز افواہ پھیلائی جاتی ہے ۔ جتنا بڑا برانڈ ہوتا ہے اتنا ہی زیادہ افواہ میں شدت ہوتی ہے ۔ ان افترا بازیوں میں اپنے غیر قانونی اہداف کے حصول کے لئے رابطے کا ہر ذریعہ استعمال کیا جاتا ہے، اس کی آسان مثال ٹیکسٹ میسیجز کی ہے جو انفرادی طور پر بے شمار افراد کو بھیجے جاتے ہیں اور ان کی کثرت سے یہ یقین ہوتاہے کہ یہ پیغامات یا تو موبائل کمپنی نے بھیجے ہیں یاپھرکسی دوسرے بہت ہی مستندذریعے سے بھیجے گئے ہیں ،ایسے پیغامات نہ صرف یہ کہ عالمی طور پر ان موبائل کمپنیوں کا امیج خراب کرتے ہیں بلکہ ان برانڈڈ مصنوعات کی کارپوریشنز کو بھی شدید دھچکہ لگاتے ہیں جو دراصل نشانہ ہوتی ھیں۔ 
مثال کے طور پر انڈونیشیا کو ہی لیجئے جہاں ساحلی علاقوں کے رہنے والے بے شمار افراد کو ایک خلیجی اخبار کے حوالے سے پیغام بھیجے گئے کہ سونامی آنے والا ہے ، اب ظاہر ہے اس پیغام سے اس علاقے میں بلا وجہ کی افرا تفری پھیل گئی ، علاقے کے محکمہ ء موسمیات نے کہا کہ یہ وارننگ  یا انتباہ ان کی جانب سے نہیں بھیجا گیا ہے ’، محمکہء موسمیات اور جیو فزیکل ایجنسی کوپانگ انڈونیشیا کے سر براہ ریوائی مارولاک کا کہنا تھا کہ ’ زلزلہ یا سونامی کی کوئی پیشگی اطلاع نہیں ہوسکتی لہذہ ہم ایسا میسیج بھی نہیں بھیج سکتے‘‘  ، لیکن بہر حال پھر بھی بہت سے افراد نے اپنے ساحلی گھروں میں اس خدشے کے تحت واپس جانے سے انکار کردیا کہ اگر یہ خبر سچی نکلی تو۔
پاکستان بھی اس وباء سے متاثر ہے پچھلے ہی سال کے جھوٹے ایس ایم ایس  کے طوفان پر نظر ڈالیں ، جس میں یہ پیغام عام کیا گیا تھا کہ اگر موبائل فون استعمال کیا تو ایک جان لیوا خطرناک وائرس اس کے استعمال کنندہ کو لگ جائے گا، اور استعمال کنندہ کی موت واقع ہوجائے گی، جسکی وجہ سے پاکستان میں موبائل کمپنیوں کے دفاتر میں کالوں کا تانتا بندھ گیا تھا ، اب ظاہر ہے یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح ہر جگہ پھیل گئی  اور بڑے شہروں کو خصوصاً اس نے اپنی لپیٹ میں لے لیا، کراچی جیسے شہر میں یہ اعلان ہوئے کہ لوگ موبائل فون کے استعمال سے مررہے ہیں اور لوگ اسے قہر خداوندی سمجھ کر خوفزدہ ہوگئے، ملک کے نشریاتی اداروں نے بھی ایسی خبریں نشر کرکے گویا اس خبر پر مہر تصدیق ثبت کردی، موبائل سروس فراہم کرنے والی کمپنیاں جو اس منصوبے کا نشانہ تھیں وہ براہ راست اس خبر سے متاثر ہوئیں۔ ایک جھوٹی خبر نے سیکنڈوں میں پھیل کر بے شمار لوگوں پر اثر کیا جس کا الٹا ہی اثر ہوا۔
ایک مشہور سیل فون کمپنی کے ٹیلی کام آپریٹر کا کہنا ہے کہ ایسی مصیبتوں سے اسوقت تک نہیں نمٹا جاسکتا جب تک اس کے خلاف کوئی قانون نہیں وضع کیا جاتا جسکے تحت غیررجسٹرڈ SIM کے استعمال پر پابندی ہو اس کے ساتھ ہی SIM کارڈز کے غلط استعمال پر ایک واضح قانون وقت کی اہم ضرورت ہے، جسکے لئے اب تک سوائے اس کے کوئی دیگر قانون نہیں ہے کہ SIM کارڈ کو بلاک کردیا جائے، لیکن بآسانی اور سستی سیلولر سروسز کی دستیابی نے اس ایکشن کو بھی بے اثر بنا کر رکھا ہوا ہے۔
غلط اطلاع چاہے ای۔میل کے ذریعے ہو ،ٹیکسٹ میسیج کے ذریعے یا زبانی لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ یہ آبادی کے ایک بڑے طبقے کو گمراہ کردیتی ہے۔ یہ بہت ضروری ہے ان خرافات سے نمٹنے کے لئے مختلف طریقہء کار اپنانے چاہیئں۔نئے میڈیا کی اہمیت پر زور دیا جانا چاہئیے جیسے کہ مائی اسپیس اور فیس بک ، افواہوں کے بحرانوں کی کیفیت ویب کے ذریعے بھی پھیلتی ہے ، لہذہ اس امر کی شدت سے ضرورت ہے کہ نئے میڈیا کو فروغ دیا جائے جو ایسے بحرانوں کا بآسانی مقابلہ کرسکتا ہے، ہم سب ہی جانتے ہیں کہ انٹر نیٹ رابطے کا ایک انتہائی مؤثر اور معتبر ذریعہ ہے۔
کارپوریشنز اب اپنے صارفین تک رسائی کے لئے مکمل طور پر ٹیلی وژن نشریات یا پرنٹ میڈیا کی نہ صرف ایڈورٹائزنگ کا بلکہ ایسے بحرانوں سے نمٹنے کے لئے سہارہ نہیں لے سکتیں۔کارپوریشنز کو اپنے صارفین تک رسائی کے لئے وقت کی اہم ضرورت ای۔میل، ویب سائٹس، پوڈکاسٹس اور دیگر کا سہارہ لینا پڑے گا۔
     ٭٭٭٭٭

No comments:

Post a Comment