Friday 14 September 2012

سویرے جو کل آنکھ میری کھلی




سویرے جو کل آنکھ میری کھلی
گیدڑ کی موت آتی ہے تو شہر کی طرف دوڑتا ہے۔ ہماری جو شامت آئی تو ایک دن اپنے پڑوسی لالہ کرپا شنکرجی برہمچاری سے برسبیل تذکرہ کہہ بیٹھے کہ "لالہ جی امتحان کے دن قریب آتے جاتے ہیں، آپ سحرخیز ہیں، ذرا ہمیں بھی صبح جگادیا کیجیئے۔"
وہ حضرت بھی معلوم ہوتا ہے نفلوں کے بھوکے بیٹھے تھے۔ دوسرے دن اُٹھتے ہی انہوں نے ایشور کا نام لے کر ہمارے دروازے پر مکابازی شروع کردی کچھ دیر تک تو ہم سمجھے کہ عالم خواب ہے۔ ابھی سے کیا فکر، جاگیں تو لاحول پڑھ لیں گے۔ لیکن یہ گولہ باری لمحہ بہ لمحہ تیز ہوتی گئی۔ اور صاحب جب کمرے کی چوبی دیواریں لرزنے لگیں، صراحی پر رکھا گلاس جلترنگ کی طرح بجنے لگا اور دیوار پر لٹکا ہوا کیلنڈر پنڈولم کی طرح ہلنے لگا تو بیداری کا قائل ہونا ہی پڑا۔ مگر اب دروازہ ہے کہ لگاتار کھٹکھٹایا جا رہا ہے۔ میں کیا میرے آباؤاجداد کی روحیں اور میری قسمت خوابیدہ تک جاگ اُٹھی ہوگی۔ بہتر آوازیں دیتا ہوں۔۔۔ "اچھا!۔۔۔ اچھا!۔۔۔ تھینک یو!۔۔۔ جاگ گیا ہوں!۔۔۔ بہت اچھا! نوازش ہے!" آنجناب ہیں کہ سنتے ہی نہیں۔ خدایا کس آفت کا سامنا ہے؟ یہ سوتے کو جگا رہے ہیں یا مردے کو جلا رہے ہیں؟ اور حضرت عیسیٰ بھی تو بس واجبی طور پر ہلکی سی آواز میں "قم" کہہ دیا کرتے ہوں گے، زندہ ہوگیا تو ہوگیا، نہیں تو چھوڑ دیا۔ کوئی مردے کے پیچھے لٹھ لے کے پڑجایا کرتے تھے؟ توپیں تھوڑی داغا کرتے تھے؟ یہ تو بھلا ہم سے کیسے ہوسکتا تھا کہ اُٹھ کر دروازے کی چٹخنی کھول دیتے، پیشتر اس کے کہ بستر سے باہر نکلیں، دل کو جس قدر سمجھانا بجھانا پڑتا ہے۔ اس کا اندازہ کچھ اہل ذوق ہی لگا سکتے ہیں۔ آخرکار جب لیمپ جلایا اور ان کو باہر سے روشنی نظر آئی، تو طوفان تھما۔
اب جو ہم کھڑکی میں سے آسمان کو دیکھتے ہیں تو جناب ستارے ہیں، کہ جگمگا رہے ہیں! سوچا کہ آج پتہ چلائیں گے، یہ سورج آخر کس طرح سے نکلتا ہے۔ لیکن جب گھوم گھوم کر کھڑکی میں سے اور روشندان میں سے چاروں طرف دیکھا اور بزرگوں سے صبح کاذب کی جتنی نشانیاں سنی تھیں۔ ان میں سے ایک بھی کہیں نظر نہ آئی، تو فکر سی لگ گئی کہ آج کہیں سورج گرہن نہ ہو؟ کچھ سمجھ میں نہ آیا، تو پڑوسی کو آواز دی۔ "لالہ جی!۔۔۔ لالہ جی؟"
جواب آیا۔ "ہوں۔"
میں نے کہا "آج یہ کیا بات ہے۔ کچھ اندھیرا اندھیرا سا ہے؟"
کہنے لگے "تو اور کیا تین بجے ہی سورج نکل آئے؟"
تین بجے کا نام سن کر ہوش گم ہوگئے، چونک کر پوچھا۔ "کیا کہا تم نے؟ تین بجے ہیں۔"
کہنے لگے۔ "تین۔۔۔ تو۔۔۔ نہیں۔۔۔ کچھ سات۔۔۔ ساڑھے سات۔۔۔ منٹ اوپر تین ہیں۔"
میں نے کہا۔ "ارے کم بخت، خدائی فوجدار، بدتمیز کہیں کے، میں نے تجھ سے یہ کہا تھا کہ صبح جگا دینا، یا یہ کہا تھا کہ سرے سے سونے ہی نہ دینا؟ تین بجے جاگنا بھی کوئی شرافت ہے؟ ہمیں تو نے کوئی ریلوے گارڈ سمجھ رکھا ہے؟ تین بجے ہم اُٹھ سکا کرتے تو اس وقت دادا جان کے منظور نظر نہ ہوتے؟ ابے احمق کہیں کے تین بجے اُٹھ کے ہم زندہ رہ سکتے ہیں؟ امیرزادے ہیں، کوئی مذاق ہے، لاحول ولاقوة"۔
دل تو چاہتا تھا کہ عدم تشدد وتشدد کو خیرباد کہہ دوں لیکن پھر خیال آیا کہ بنی نوع انسان کی اصلاح کا ٹھیکہ کوئی ہمیں نے لے رکھا ہے؟ ہمیں اپنے کام سے غرض۔ لیمپ بجھایا اور بڑبڑاتے ہوئے پھر سوگئے۔
اور پھر حسب معمول نہایت اطمینان کے ساتھ بھلے آدمیوں کی طرح اپنے دس بجے اُٹھے، بارہ بجے تک منھ ہاتھ دھویا اور چار بجے چائے پی کر ٹھنڈی سڑک کی سیر کو نکل گئے۔
شام کو واپس ہاِسٹل میں وارد ہوئے۔ جوش شباب تو ہے ہی اس پر شام کا ارمان انگیز وقت۔ ہوا بھی نہایت لطیف تھی۔ طبعیت بھی ذرا مچلی ہوئی تھی۔ ہم ذرا ترنگ میں گاتے ہوئے کمرےمیں داخل ہوئے کہ
بلائیں زلف جاناں کی اگر لیتے تو ہم لیتے
کہ اتنے میں پڑوسی کی آواز آئی۔ "مسٹر"۔
ہم اس وقت ذرا چٹکی بجانے لگے تھے۔ بس انگلیاں وہیں پر رک گئیں۔ اور کان آواز کی طرف لگ گئے۔ ارشاد ہوا "یہ آپ گا رہے ہیں؟" (زور "آپ" پر)
میں نے کہا۔ "اجی میں کس لائق ہوں۔ لیکن خیر فرمائیے؟" بولے "ذرا۔۔۔ وہ میں۔۔۔ میں ڈسٹرب ہوتا ہوں ۔ بس صاحب۔ ہم میں جو موسیقیت کی روح پیدا ہوئی تھی فوراً مر گئی۔ دل نے کہا۔ "اونابکار انسان دیکھ پڑھنے والے یوں پڑھتے ہیں "صاحب، خدا کے حضور گڑگڑا کر دعا مانگی کہ "خدایا ہم بھی اب باقاعدہ مطالعہ شروع کرنے والے ہیں۔ہماری مدد کر اور ہمیں ہمت دے۔"
آنسو پونچھ کر اور دل کو مضبوط کرکے میز کے سامنے آبیٹھے، دانت بھینچ لئے، نکٹائی کھول دی، آستینیں چڑھا لیں، لیکن کچھ سمجھ میں نہ آيا کہ کریں کیا؟ سامنے سرخ سبز، زرد سب ہی قسم کی کتابوں کا انبار لگا تھا۔ اب ان میں سے کوئی سی پڑھیں؟ فیصلہ یہ ہوا کہ پہلے کتابوں کو ترتیب سے میز پر لگادیں کہ باقاعدہ مطالعہ کی پہلی منزل یہی ہے۔
بڑی تقطیع کی کتابوں کو علیحدہ رکھ دیا۔ چھوٹی تقطیع کی کتابوں کو سائز کے مطابق الگ قطار میں کھڑا کردیا۔ ایک نوٹ پیپر پر ہر ایک کتاب کے صفحوں کی تعداد لکھ کر سب کو جمع کیا پھر
۱۵۔اپریل تک کے دن گنے۔ صفحوں کی تعداد کو دنوں کی تعداد پر تقسیم کیا۔ ساڑھے پانچ سو جواب آیا، لیکن اضطراب کی کیا مجال جو چہرے پر ظاہر ہونے پائے۔ دل میں کچھ تھوڑا سا پچھتائے کہ صبح تین بجے ہی کیوں نہ اُٹھ بیٹھے لیکن کم خوابی کے طبی پہلو پر غور کیا۔ تو فوراً اپنے آپ کو ملامت کی۔ آخرکار اس نتیجے پر پہنچے کہ تین بجے اُٹھنا تو لغویات ہےالبتہ پانچ، چھ، سات بجے کے قریب اُٹھنا معقول ہوگا۔ صحت بھی قائم رہے گی، اور امتحان کی تیاری بھی باقاعدہ ہوگی۔ ہم خرماد ہم ثواب۔
یہ تو ہم جانتے ہیں کہ سویرے اُٹھنا ہو تو جلدی ہی سو جانا چاہیئے۔ کھانا باہر سے ہی کھا آئے تھے۔ بستر میں داخل ہوگئے۔
چلتے چلتے خیال آیا، کہ لالہ جی سے جگانے کے ليے کہہ ہی نہ دیں؟ یوں ہماری اپنی قوت ارادی کافی زبردست ہے جب چاہیں اُٹھ سکتے ہیں، لیکن پھر بھی کیا ہرج ہے؟
ڈرتے ڈرتے آواز دی۔ "لالہ جی!"
انہوں پتھر کھینچ مارا "یس!"
ہم اور بھی سہم گئے کہ لالہ جی کچھ ناراض معلوم ہوتے ہیں، تتلا کے درخواست کی کہ لالہ جی، صبح آپ کو بڑی تکلیف ہوئی، میں آپ کا بہت ممنون ہوں۔ کل اگر ذرا مجھے چھ بجے یعنی جس وقت چھ بجیں۔۔۔"
جواب ندارد۔
میں نے پھر کہا "جب چھ بج چکیں تو۔۔۔ سنا آپ نے؟"
چپ۔
"لالہ جی!"
کڑکتی ہوئی آواز نے جواب دیا۔ "سن لیا سن لیا چھ بجے جگا دوں گا۔ تھری گاما پلس فور ایلفا پلس۔۔۔"
"ہم نے کہا ب۔۔۔ ب۔۔۔ ب۔۔۔ بہت اچھا۔ یہ بات ہے۔"
توبہ! خدا کسی کا محتاج نہ کرے۔
لالہ جی آدمی بہت شریف ہیں۔ اپنے وعدے کے مطابق دوسرے دن صبح چھ بجے انہوں نے دروازو ں پر گھونسوں کی بارش شروع کردی۔ ان کا جگانا تو محض ایک سہارا تھا ہم خود ہی انتظار میں تھے کہ یہ خواب ختم ہولے تو بس جاگتے ہیں۔ وہ نہ جگاتے تو میں خود ایک دو منٹ کے بعد آنکھیں کھول دیتا۔ بہر صورت جیسا کہ میرا فرض تھا۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے اس شکل میں قبول کیا کہ گولہ باری بند کردی۔

اس کے بعد کے واقعات ذرا بحث طلب سے ہیں اور ان کے متعلق روایات میں کسی قدر اختلافات ہے بہرحال اس بات کا تو مجھے یقین ہے۔ اور میں قسم بھی کھا سکتا ہوں کہ آنکھیں میں نے کھول دی تھیں۔ پھر یہ بھی یاد ہے کہ ایک نیک اور سچے مسلمان کی طرح کلمہ شہادت بھی پڑھا۔ پھر یہ بھی یاد ہے کہ اُٹھنے سے پیشتر دیباچے کے طور پر ایک آدھ کروٹ بھی لی۔ پھر کا نہیں پتہ۔ شاید لحاف اوپر سے اتار دیا۔ شاید سر اس میں لپیٹ دیا۔ یا شاید کھانسایا خراٹا لیا۔ خیر یہ تو یقین امر ہے کہ دس بجے ہم بالکل جاگ رہے تھے۔ لیکن لالہ جی کے جگانے کے بعد اور دس بجے سے پیشتر خدا جانے ہم پڑھ رہے تھے یا شاید سو رہے تھے۔ نہیں ہمارا خیال ہے پڑھ رہے تھے یا شاید سو رہے تھے۔ بہرصورت یہ نفسیات کا مسئلہ ہے جس میں نہ آپ ماہر ہیں نہ میں۔ کیا پتہ، لالہ جی نے جگایا ہی دس بجے ہو۔ یا اس دن چھ دیر میں بجے ہوں۔ خدا کے کاموں میں ہم آپ کیا دخل دے سکتے ہیں۔ لیکن ہمارے دل میں دن بھر یہ شبہ رہا کہ قصور کچھ اپنا ہی معلوم ہوتا ہے۔ جناب شرافت ملاحظہ ہو، کہ محض اس شبہ کی بناء پر صبح سے شام تک ضمیر کی ملامت سنتا رہا۔ اور اپنے آپ کو کوستا رہا۔ مگر لالہ جی سے ہنس ہنس کر باتیں کیں ان کا شکریہ ادا کیا۔ اور اس خیال سے کہ ان کی دل شکنی ہو، حد درجے کی طمانیت ظاہر کی کہ آپ کی نوازش سے میں نے صبح کا سہانا اور روح افزا وقت بہت اچھی طرح صرف کیا ورنہ اور دنوں کی طرح آج بھی دس بجے اُٹھتا۔ "لالہ جی صبح کے وقت دماغ کیا صاف ہوتا ہے، جو پڑھو خدا کی قسم فوراً یاد ہوجاتا ہے۔ بھئی خدا نے صبح بھی کیا عجیب چیز پیدا کی ہے یعنی اگر صبح کے بجائے صبح صبح شام ہوا کرتی تو دن کیا بری طرح کٹا کرتا۔"
لالہ جی نے ہماری اس جادوبیانی کی داد یوں دی کہ آپ پوچھنے لگے۔ "تو میں آپ کو چھ بجے جگا دیا کروں نا؟"
میں نے کہا۔ "ہاں ہاں، واہ یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے۔ بےشک۔"
شام کے وقت آنے والی صبح کے مطالعہ کے ليے دو کتابیں چھانٹ کر میزپر علیحدہ جوڑ دیں۔ کرسی کو چارپائی کے قریب سرکالیا۔ اوورکوٹ اور گلوبند کو کرسی کی پشت پر آویزاں کر لیا۔ کنٹوپ اور دستانے پاس ہی رکھ ليے۔ دیاسلائی کو تکیئے کے نیچے ٹٹولا۔ تین دفعہ آیت الکرسی پڑھی، اور دل میں نہایت ہی نیک منصوبے باندھ کر سوگیا۔
صبح لالہ جی کی پہلی دستک کے ساتھ ہی جھٹ آنکھ کھل گئی، نہایت خندہ پیشانی کے ساتھ لحاف کی ایک کھڑکی میں سے ان کو "گڈمارننگ" کیا، اور نہیات بیدارانہ لہجے میں کھانسا، لالہ جی مطمئن ہو کر واپس چلے گئے۔

ہم نے اپنی ہمت اور اولوالعزمی کو بہت سراہا کہ آج ہم فوراً ہی جاگ اُٹھے۔ دل سے کہا کہ "دل بھیا، صبح اُٹھنا تو محض ذرا سی بات ہے ہم یوں ہی اس سے ڈرا کرتے تھے"۔ دل نے کہا "اور کیا؟ تمہارے تو یوں ہی اوسان خطا ہوجایا کرتے ہیں"۔ ہم نے کہا "سچ کہتے ہو یار، یعنی اگر ہم سستی اور کسالت کو خود اپنے قریب نہ آنے دیں تو ان کی کیا مجال ہے کہ ہماری باقاعدگی میں خلل انداز ہوں۔ اس وقت لاہور شہر میں ہزاروں ایسے کاہل لوگ ہوں گے جو دنیا ومافیہا سے بےخبر نیند کے مزے اُڑاتے ہوں گے۔ اور ایک ہم ہیں کہ ادائے فرض کی خاطر نہایت شگفتگہ طبعی اور غنچہ دہنی سے جاگ رہے ہیں۔ "بھئی کیا برخوردار سعادت آثار واقع ہوئے ہیں۔" ناک کو سردی سی محسوس ہونے لگی تو اسے ذرا یو ں ہی سا لحاف اوٹ میں کر لیا اور پھر سوچنے لگے۔۔۔ "خوب۔ تو ہم آج کیا وقت پر جاگے ہیں بس ذرا اس کی عاد ت ہوجائے تو باقاعدہ قرآن مجید کی تلاوت اور فجر کی نماز بھی شروع کردیں گے۔ آخر مذہب سب سے مقدم ہے ہم بھی کیا روزبروز الحاد کی طرف مائل ہوتے جاتے ہیں نہ خدا کا ڈر اور نہ رسول کا خوف۔ سمجھتے ہیں کہ بس اپنی محنت سے امتحان پاس کرلیں گے۔ اکبر بیچارا یہی کہتا کہتا مرگیا لیکن ہمارے کان پر جوں تک نہ چلی۔۔۔ (لحاف کانوں پر سرک آیا)۔۔۔ تو گویا آج ہم اور لوگوں سے پہلے جاگے ہیں۔۔۔ بہت ہی پہلے۔۔۔ یعنی کالج شروع ہونے سے بھی چار گھنٹے پہلے۔ کیا بات ہے! خداوندان کالج بھی کس قدر سست ہیں ایک مستعد انسان کو چھ بجے تک قطعی جاگ اُٹھنا چاہئے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کالج سات بجے کیوں نہ شروع ہوا کرے۔۔۔ (لحاف سر پر)۔۔۔ بات یہ ہے کہ تہذیب جدید ہماری تمام اعلیٰ قوتوں کی بیخ کنی کر رہی ہے۔ عیش پسندی روزبروز بڑھتی جاتی ہے۔۔۔ (آنکھیں بند)۔۔۔ تو اب چھ بجے ہیں تو گویا تین گھنٹے تو متواتر مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ پہلے کون سی کتابیں پڑھیں۔ شیکسپیئر یا ورڈزورتھ؟ میں جانوں شیکسپیئر بہتر ہوگا۔ اس کی عظیم الشان تصانیف میں خدا کی عظمت کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔ اور صبح کے وقت الله میاں کی یاد سے بہتر چیز کیا ہوسکتی ہے؟ پھر خیال آیا کہ دن کو جذبات کے محشرستان سے شروع کرنا ٹھیک فلسفہ نہیں۔ ورڈزورتھ پڑھیں۔ اس کے اوراق میں فطرت کو سکون واطمینان میسر ہوگا اور دل اور دماغ نیچر کی خاموش دلآویزیوں سے ہلکے ہلکے لطف اندوز ہوں گے۔۔۔ لیکن ٹھیک ہی رہے گا شیکسپیئر۔۔۔ نہیں ورڈزورتھ۔۔۔ لیڈی میکبتھ۔۔۔ دیوانگی۔۔۔ سبزہ زار۔۔۔ سنجر سنجر۔۔۔ بادبہاری۔۔۔ صید ہوس۔۔۔ کشمیر۔۔۔ میں آفت کا پرکالہ ہوں۔۔۔

یہ معمہ اب مابعد الطبعیات ہی سے تعلق رکھتا ہے کہ پھر جو ہم نے لحاف سے سر باہر نکالا اور ورڈزورتھ پڑھنے کا ارادہ کیا تو وہی دس بج رہے تھے۔ اس میں نہ معلوم کیا بھید ہے!
کالج ہال میں لالہ جی ملے۔ "مسٹر! صبح میں نے آپ کو پھر آواز دی تھی، آپ نے جواب نہ دیا؟"
میں نے زور کا قہقہہ لگا کر کہا۔ "اوہو۔ لالہ جی یاد نہیں۔ میں نے آپ کو گڈمارننگ کہا تھا؟ میں تو پہلے ہی سے جاگ رہا تھا"۔
بولے "وہ تو ٹھیک ہے لیکن بعد میں۔۔۔ اس کے بعد!۔۔۔ کوئی سات بجے کے قریب میں نے آپ سے تاریخ پوچھی تھی، آپ بولے ہی نہیں۔"
ہم نے نہایت تعجب کی نظروں سے ان کو دیکھا۔ گویا وہ پاگل ہوگئے ہیں۔ اور پھر ذرا متین چہرہ بنا کر ماتھے پر تیوریاں چڑھائےغوروفکر میں مصروف ہوگئے۔ ایک آدھ منٹ تک ہم اس تعمق میں رہے۔ پھر یکایک ایک محجومانہ اور معشوقانہ انداز سے مسکراکے کہا۔ "ہاں ٹھیک ہے، ٹھیک ہے، میں اس وقت۔۔۔ اے۔۔۔ اے، نماز پڑھ رہا تھا۔"
لالہ جی مرعوب سے ہو کر چل دیئے۔ اور ہم اپنے زہد واتقا کی مسکینی میں سر نیچا کئے کمرے کی طرف چلے آئے۔ اب یہی ہمارا روزمرہ کا معمول ہوگیا ہے۔ جاگنا نمبر ایک چھ بجے۔ جگانا نمبر دو دس بجے۔ اس دوران لالہ جی آواز دیں تو نماز۔
جب دل مرحوم ایک جہان آرزو تھا تو یوں جاگنے کی تمنا کیا کرتے تھے کہ "ہمارا فرق ناز محو بالش کمخواب" ہو اور سورج کی پہلی کرنیں ہمارے سیاہ پُرپیچ بالوں پر پڑ رہی ہیں۔ کمرے میں پھولوں کی بوئے سحری روح افزائیاں کر رہی ہو۔ نازک اور حسین ہاتھ اپنی انگلیوں سے بربط کے تاروں کو ہلکے ہلکے چھیڑ رہے ہوں۔ اور عشق میں ڈوبی ہوئی سریلی اور نازک آواز مسکراتی ہوئی گا رہی ہو!
تم جاگو موہن پیارے
خواب کی سنہری دھند آہستہ آہستہ موسیقی کی لہروں میں تحلیل ہوجائے اور بیداری ایک خوشگوار طلسم کی طرح تاریکی کے باریک نقاب کو خاموشی سے پارہ پارہ کردے چہرے کسی کی نگاہ اشتیاق کی گرمی محسوس کر رہا ہو۔ آنکھیں مسحور ہو کر کھلیں اور چار ہوجائیں۔ دلآویز تبسم صبح کو اور بھی درخشندہ کردے۔ اور گیت "سانوری صورت توری من کو بھائی" کے ساتھ ہی شرم وحجاب میں ڈوب جائے۔

نصیب یہ ہے کہ پہلے "مسٹر! مسٹر!" کی آواز اور دروازے کے دنادن سامعہ نوازی کرتی ہے، اور پھر چار گھنٹے بعد کالج کا گھڑیال دماغ کے ریشے ریشے میں دس بجانا شروع کردیتا ہے۔ اور اس چار گھنٹے کے عرصہ میں گڑویوں کے گر گرنے۔ دیگچیوں کے اُلٹ جانے، دروازوں کے بند ہونے، کتابوں کے جھاڑنے، کرسیوں کے گھسیٹنے، کُلیاں اور غرغرے کرنے، کھنکھارنے اور کھانسنے کی آوازیں تو گویا فی البدیہہ ٹھمریاں ہیں۔ اندازہ کرلیجیئے کہ ان سازوں میں سُرتال کی کس قدر گنجائش ہے!
موت مجھ کو دکھائی دیتی ہے
جب طبعیت کو دیکھتا ہوں میں

مریدپور کا پیر

مریدپور کا پیر

اکثر لوگوں کو اس بات کا تعجب ہوتا ہے کہ میں اپنے وطن کا ذکر کبھی نہیں کرتا۔ بعض اس بات پر بھ
 حیران ہیں کہ میں اب کبھی اپنے وطن کو نہیں جاتا۔ جب کبھی لوگ مجھ سے اس کی وجہ پوچھتے ہیں تو میں ہمیشہ بات کو ٹال دیتا ہوں۔ اس سے لوگوں کو طرح طرح کے شبہات ہونے لگتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے وہاں اس پر ایک مقدمہ بن گیا تھا اس کی وجہ سے روپوش ہے۔ کوئی کہتا ہے وہاں کہیں ملازم تھا، غبن کا الزام لگا، ہجرت کرتے ہی بنی۔ کوئی کہتا ہے والد اس کی بدعنوانیوں کی وجہ سے گھر میں نہیں گھسنے دیتے۔ غرض یہ کہ جتنے منہ اتنی باتیں۔ آج میں ان سب غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے والا ہوں۔ خدا آپ پڑھنے والوں کو انصاف کی 
توفیق دے۔
قصہ میرے بھتیجے سے شروع ہوتا ہے۔ میرا بھتیجا دیکھنے میں عام بھتیجوں سے مختلف نہیں۔ میری تمام خوبیاں اس میں موجود ہیں اور اس کے علاوہ نئی پود سے تعلق رکھنے کے باعث اس میں بعض فالتو اوصاف نظر آتے ہیں۔ لیکن ایک صفت تو اس میں ایسی ہے کہ آج تک ہمارے خاندان میں اس شدت کے ساتھ کبھی رونما نہیں ہوئی تھی۔ وہ یہ کہ بڑوں کی عزت کرتا ہے۔ اور میں تو اس کے نزدیک بس علم وفن کا ایک دیوتا ہوں۔ یہ خبط اس کے دماغ میں کیوں سمایا ہے؟ اس کی وجہ میں یہی بتا سکتا ہوں کہ نہایت اعلیٰ سے اعلیٰ خاندانوں میں بھی کبھی کبھی ایسا دیکھنے میں آجاتا ہے۔ میں شائستہ سے شائستہ دو زمانوں کے فرزندوں کو بعض وقت بزرگوں کا اس قدر احترام کرتے دیکھا، کہ ان پر پنچ ذات کا دھوکا ہونے لگتاہے۔
ایک سال میں کانگریس کے جلسے میں چلا گیا۔ بلکہ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ کانگریس کا جلسہ میرے پاس چلا آیا۔ مطلب یہ کہ جس شہر میں، میں موجود تھا وہیں کانگریس والوں نے بھی اپنا سالانہ اجلاس منعقد کرنے کی ٹھان لی۔ میں پہلے بھی اکثر جگہ اعلان کرچکا ہوں، اور اب میں بیانگ دہل یہ کہنے کو تیار ہوں کہ اس میں میرا ذرا بھی قصور نہ تھا۔ بعض لوگوں کو یہ شک ہے کہ میں نے محض اپنی تسکین نخوت کے ليے کانگریس کا جلسہ اپنے پاس ہی کرالیا لیکن یہ محض حاسدوں کی بدطینتی ہے۔ بھانڈوں کو میں نے اکثر شہر میں بلوایا ہے۔ دو ایک مرتبہ بعض تھیٹروں کو بھی دعوت دی ہے لیکن کانگریس کے مقابلے میں میرا رویہ ہمیشہ ایک گمنام شہری کا سا رہا ہے۔ بس اس سے زیادہ میں اس موضوع پر کچھ نہ کہوں گا۔
جب کانگریس کا سالانہ جلسہ بغل میں ہو رہا ہو تو کون ایسا متقی ہوگا جو وہاں جانے سے گریز کرے، زمانہ بھی تعطیلات اور فرصت کا تھا چنانچہ میں نے مشغل بیکاری کے طور پر اس جلسے کی ایک ایک تقریری سنی۔ دن بھر تو جلسے میں رہتا۔ رات کو گھر آکر اس دن کے مختصر سے حالات اپنے بھتیجے کو لکھ بھیجتا تاکہ سند رہے اور وقت ضرورت کام آئے۔
بعد کے واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ بھتیجے صاحب میرے ہر خط کو بےحد ادب واحترام کے ساتھ کھولتے، بلکہ بعض بعض باتوں سے تہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس افتتاحی تقریب سے پیشتر وہ باقاعدہ وضو بھی کرلیتے۔ خط کو خود پڑھتے پھر دوستوں کو سناتے۔ پھر اخباروں کے ایجنٹ کی دکان پر مقامی لال بجھکڑوں کے حلقے میں اس کو خوب بڑھا چڑھا کر دہراتے پھر مقامی اخبار کے بےحد مقامی ایڈیٹر کے حوالے کردیتے جو اس کو بڑے اہتمام کے ساتھ چھاپ دیتا۔ اس اخبار کا نام"مریدپور گزٹ" ہے۔ اس کا مکمل فائل کسی کے پاس موجود نہیں، دو مہینے تک جاری رہا۔ پھر بعض مالی مشکلات کی وجہ سے بند ہوگیا۔ ایڈیٹر صاحب کا حلیہ حسب ذیل ہے۔ رنگ گندمی، گفتگو فلسفیانہ، شکل سے چور معلوم ہوتے ہیں۔ کسی صاحب کو ان کا پتہ معلوم ہو تو مریدپور کی خلافت کمیٹی کو اطلاع پہنچادیں اور عندالله ماجور ہوں۔ نیز کوئی صاحب ان کو ہرگز ہرگز کوئی چندہ نہ دیں ورنہ خلافت کمیٹی ذمہ دار نہ ہوگی۔
یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ اس اخبار نے میرے ان خطوط کے بل پر ا یک کانگریس نمبر بھی نکال مارا۔ جو اتنی بڑی تعداد میں چھپا کہ اس کے اوراق اب تک بعض پنساریوں کی دکانوں پر نظر آتے ہیں۔ بہرحال مریدپور کے بچے بچے نے میری قابلیت، انشاء پردازی، صحیح الدماغی اور جوش قومی کی داد دی۔ میری اجازت اور میرے علم کے بغیر مجھ کو مریدپور کا قومی لیڈر قرار دیا گیا۔ ایک دو شاعروں نے مجھ پر نظمیں بھی لکھیں۔ جو وقتاً فوقتاً مریدپور گزٹ میں چھپتی رہیں۔
میں اپنی اس عزت افزائی سے محض بےخبر تھا۔ سچ ہے خدا جس کو چاہتا ہے عزت بخشتا ہے، مجھے معلوم تھا کہ میں اپنے بھتیجے کو محض چند خطوط لکھ کر اپنے ہم وطنوں کے دل میں اس قدر گھر کرلیا ہے۔ اور کسی کو کیا معلوم تھا کہ یہ معمولی سا انسان جو ہر روز چپ چاپ سر نیچا کئے بازاروں میں سے گزر جاتا ہے مرید پور میں پوُجا جاتا ہے۔ میں وہ خطوط لکھنے کے بعد کانگریس اور اس کے تمام متعلقات کو قطعاً فراموش کرچکا تھا۔ مریدپور گزٹ کا میں خریدار نہ تھا۔ بھتیجے نے میری بزرگی کے رعب کی وجہ سے بھی برسبیل تذکرہ اتنا بھی نہ لکھ بھیجا کہ آپ لیڈر ہوگئے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ وہ مجھ سے یوں کہتا تو برسوں تک اس کی بات میری سمجھ میں نہ آتی بہرحال مجھے کچھ تو معلوم ہوتا کہ میں ترقی کرکے کہاں سے کہاں پہنچ چکا ہوں۔
کچھ عرصے بعد خون کی خرابی کی وجہ سے ملک میں جابجا جلسے نکل آئے جس کسی کو ایک میز، ایک کرسی اور گلدان میسر آیا اسی نے جلسے کا اعلان کردیا۔ جلسوں کے اس موسم میں ایک دن مریدپور کی انجمن نوجوانان ہند کی طرف سے میرے نام اس مضمون کا ایک حظ موصول ہواکہ آپ کے شہر کے لوگ آپ کے دیدار کے منتظر ہیں۔ ہر کہ دمہ آپ کے روئے انور کو دیکھنے اورآپ کے پاکیزہ خیالت سے مستفید ہونے کےليے بےتاب ہیں۔ مانا ملک بھر کو آپ کی ذات بابرکات کی ازحد ضرورت ہے۔ لیکن وطن کا حق سب سے زیادہ ہے۔ کیونکہ "خار وطن از سنبل و ریحان خوشتر۔۔۔" اسی طرح کی تین چار براہین قطعہ کے بعد مجھ سے یہ درخواست کی گئی تھی کہ آپ یہاں آکر لوگوں کو ہندومسلم اتحاد کی تلقین کریں۔
خط پڑھ کر میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی۔ لیکن جب ٹھنڈے دل سے اس بات پر غور کیا تو رفتہ رفتہ باشندگان مریدپور کی مردم شناسی کا قائل ہوگیا۔
میں ایک کمزور انسان ہوں اور پھر لیڈری کا نشہ ایک لمحے ہی میں چڑھ جاتا ہے۔ اس لمحے کے اندر مجھے اپنا وطن بہت ہی پیارا معلوم ہونے لگا۔ اہل وطن کی بےحسی پر بڑا ترس آیا۔ ایک آواز نے کہا کہ ان بیچاروں کی بہبودی اور رہنمائی کا ذمہ دار تو ہی ہے۔ تجھے خدا نے تدبر کی قوت بخشی ہے۔ ہزارہا انسان تیرے منتظر ہیں۔ اُٹھ کہ سینکڑوں لوگ تیرے ليے ماحضر لئے بیٹھے ہوگے۔ چنانچہ میں نے مریدپور کی دعوت قبول کرلی۔ اور لیڈرانہ انداز میں بذریعہ تار اطلاع دی، کہ پندرہ دن کے بعد فلاں ٹرین سے مریدپور پہنچ جاؤں گا، اسٹیشن پر کوئی شخص نہ آئے۔ ہر ایک شخص کو چاہئے کہ اپنے اپنے کام میں مصروف رہے۔ ہندوستان کو اس وقت عمل کی ضرورت ہے۔
اس کے بعد جلسے کے دن تک میں نے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ اپنی ہونے والی تقریر کی تیاری میں صرف کردیا، طرح طرح کے فقرے دماغ میں صبح وشام پھرتے رہے۔
"ہند اور مسلم بھائی بھائی ہیں۔"
"ہندو مسلم شیروشکر ہیں۔"
"ہندوستان کی گاڑی کے دو پہیے۔ اے میرے دوستو! ہندواور مسلمان ہی تو ہیں۔"
"جن قوموں نے اتفاق کی رسی کو مضبوط پکڑا، وہ اس وقت تہذیب کے نصف النہار پر ہیں۔ جنہوں نے نفاق اور پھوٹ کی طرف رجوع کیا۔ تاریخ نے اس کی طرف سے اپنی آنکھیں بند کرلی ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔"
بچپن کے زمانے میں کسی درسی کتاب میں "سنا ہے کہ دو بیل رہتے تھے اک جا" والا واقعہ پڑھا تھا۔ اسے نکال کر نئے سرے سے پڑھا اور اس کی تمام تفصیلات کو نوٹ کرلیا۔ پھر یاد آیا، کہ ایک اور کہانی بھی پڑھی تھی، جس میں ایک شخص مرتے وقت اپنے تمام لڑکوں کو بلا کر لکڑیوں کا ا یک گٹھا ان کے سامنے رکھ دیتا ہے اور ان سے کہتا ہے کہ اس گٹھے کو توڑو۔ وہ توڑ نہیں سکے۔ پھر اس گٹھے کو کھول کر ایک ایک لکڑی ان سب کے ہاتھ میں دے دیتا ہے۔ جسے وہ آسانی سے توڑ لیتے ہیں۔ اس طرح وہ اتفاق کا سبق اپنی اولاد کے ذہن نشین کرتا ہے۔ اس کہانی کو بھی لکھ لیا، تقریر کا آغاز سوچا۔ سو کچھ اس طرح کی تمہید مناسب معلوم ہوئی کہ:
"پیارے ہم وطنو!"
گھٹا سر پہ ادبار کی چھا رہی ہے
فلاکت سماں اپنا دکھلا رہی ہے
نحوست پس و پیش منڈلا رہی ہے
یہ چاروں طرف سے ندا آ رہی ہے
کہ کل کون تھے آج کیا ہوگئے تم
ابھی جاگتے تھے ابھی سو گئے تم
ہندوستان کے جس مایہ ناز شاعر یعنی الطاف حسین حالی پانی پتی نے آج سے کئی برس پیشتر یہ اشعار قلمبند کئے تھے۔ اس کو کیا معلوم تھا، کہ جوں جوں زمانے گزرتا جائے گا، اس کے المناک الفاظ روزبروز صحیح تر ہوتے جائیں گے۔ آج ہندوستان کی یہ حالت ہے۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔

اس کے بعد سوچا کہ ہندوستان کی حالت کا ایک دردناک نقشہ کھینچوں گا، افلاس، غربت، بغض وغیرہ کی طرف اشارہ کروں گا اور پھر پوچھوں گا، کہ اس کی وجہ آخر کیا ہے؟ ان تمام وجوہ کو دہراؤں گا، جو لوگ اکثر بیان کرتے ہیں۔ مثلاً غیرملکی حکومت، آب وہوا، مغربی تہذیب۔ لیکن ان سب کو باری باری غلط قرار دوں گا، اور پھر اصل وجہ بتاؤں گا کہ اصل وجہ ہندوؤں اور مسلمانوں کا نفاق ہے، آخر میں اتحاد کی نصیحت کروں گا اور تقریر کو اس شعر پر ختم کروں گا کہ:
آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں
تو ہائے گل پکار میں چلاؤں ہائے دل
دس بارہ دن اچھی طرح غور کرلینے کے بعد میں نے اس تقریر کا ایک خاکہ سا بنایا۔ اور اس کو ایک کاغذ پر نوٹ کیا، تاکہ جلسے میں اسے اپنے سامنے رکھ سکوں۔ وہ خاکہ کچھ اس طرح کا تھا،
(
۱) تمہید اشعار حالی۔ (بلند اور دردناک آواز سے پڑھو۔)
۲) ہندوستان کی موجودہ حالت۔
(الف) افلاس
(ب‌) بغض
(ج‌) قومی رہنماؤں کی خودغرضی
۳) اس کی وجہ۔
کیا غیرملکی حکومت ہے؟ نہیں۔
کیا آب و ہوا ہے؟ نہیں۔
کیا مغربی تہذیب ہے؟ نہیں۔
تو پھر کیا ہے؟ (وقفہ، جس کے دوران میں مسکراتے ہوئے تمام حاضرین جلسہ پر ایک نظر ڈالو۔)
(
۴) پھر بتاؤ، کہ وجہ ہندوؤں اور مسلمانوں کا نفاق ہے۔ (نعروں کے ليے وقفہ۔)
اس کا نقشہ کھینچو۔ فسادات وغیرہ کا ذکر رقت انگیز آواز میں کرو۔
(اس کے بعد شاید پھر چند نعرے بلند ہوں، ان کے ليے ذرا ٹھہر جاؤ۔)
(
۵) خاتمہ۔ عام نصائح۔ خصوصیات اتحاد کی تلقین، شعر
(اس کے بعد انکسار کے انداز میں جا کر اپنی کرسی پر بیٹھ جاؤ۔ اور لوگوں کی داد کے جواب میں ایک ایک لمحے کے بعد حاضرین کو سلام کرتے رہو۔)
اس خاکے تیار کرچکنے کے بعد جلسے کے دن تک ہر روز اس پر نظر ڈالتا رہا اور آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر بعد معرکہ آرا فقروں کی مشق کرتا رہا۔ نمبر
۳ کے بعد کی مسکراہٹ کی خاص مشق بہم پہنچائی۔ کھڑے ہو کر دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں گھومنے کی عادت ڈالی تاکہ تقریر کے دوران میں آواز سب تک پہنچ سکے اور سب اطمینان کے ساتھ ایک ایک لفظ سن سکیں۔
مریدپور کا سفر آٹھ گھنٹے کا تھا۔ رستے میں سانگا کے اسٹیشن پر گاڑی بدلنی پڑتی تھی۔ انجمن نوجوان ہند کے بعض جوشیلے ارکان وہاں استقبال کو آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے ہار پہنائے۔ اور کچھ پھل وغیرہ کھانے کو دیئے۔ سانگا سے مریدپور تک ان کے ساتھ اہم سیاسی مسائل پر بحث کرتا رہا۔ جب گاڑی مریدپور پہنچی تو اسٹیشن کے باہر کم از کم تین ہزار آدمیوں کا ہجوم تھا۔ جو متواتر نعرے لگا رہا تھا۔ میرے ساتھ جو والنٹیئر تھے، انہوں نے کہا، "سر باہر نکالئے، لوگ دیکھنا چاہتے ہیں۔" میں نے حکم کی تعمیل کی۔ ہار میرے گلے میں تھے۔ ایک سنگترہ میرے ہاتھ میں تھا، مجھے دیکھا تو لوگ اور بھی جوش کے ساتھ نعرہ زن ہوئے۔ بمشکل تمام باہر نکلا۔ موٹر پر مجھے سوار کرایاگیا۔ اور جلوس جلسہ گاہ کی طرف پایا۔
جلسہ گاہ میں داخل ہوئے، تو ہجوم پانچ چھ ہزار تک پہنچ چکا تھا۔ جو ایک آواز ہو کر میرا نام لے لے کر نعرے لگاتا رہا تھا۔ دائیں بائیں، سرخ سرخ جھنڈیوں پر مجھ خاکسار کی تعریف میں چند کلمات بھی درج تھے۔ "مثلاً ہندوستان کی نجات تمہیں سے ہے۔" "مریدپور کے فرزند خوش آمدید۔" "ہندوستان کو اس وقت عمل کی ضرورت ہے۔"
مجھ کو اسٹیج پر بٹھایا گیا ہے۔ صدر جلسہ نے لوگوں کے سامنے مجھے سے دوبارہ مصافحہ کیا اور میرے ہاتھ کو بوسہ دیا اور پھر اپنی تعارفی تقریر یوں شروع کی:
"حضرات! ہندوستان کے جس نامی اور بلند پایہ لیڈر کو آج جلسے میں تقریر کرنے کے ليے بلایا گیا ہے۔۔۔"
تقریر کا لفظ سن کر میں نے اپنی تقریر کے تمہیدی فقروں کو یاد کرنے کی کوشش کی۔ لیکن اس وقت ذہن اس قدر مختلف تاثرات کی آماجگاہ بنا ہوا تھا، کہ نوٹ دیکھنے کی ضرورت پڑی۔ جیب میں ہاتھ ڈالا تو نوٹ ندارد۔ ہاتھ پاؤں میں یک لخت ایک خفیف سی خنکی محسوس ہوئی۔ دل کو سنبھالا کہ ٹھہرو، ابھی اور کئی جیبیں ہیں گھبراؤ نہیں رعشے کے عالم میں سب جیبیں دیکھ ڈالیں۔ لیکن کاغذ کہیں نہ ملا۔تمام ہال آنکھوں کے سامنے چکر کھانے لگا، دل نے زور زور سے دھڑکنا شروع کیا، ہونٹ خشک ہوتے محسوس ہوئے۔ دس بارہ دفعہ جیبوں کو ٹٹولا۔ لیکن کچھ بھی ہاتھ نہ آیا جی چاہا کہ زور زور سے رونا شروع کردوں۔ بےبسی کے عالم میں ہونٹ کاٹنے لگے، صدر جلسہ اپنی تقریر برابر کر رہے تھے۔
مریدپور کا شہر ان پر جتنا بھی فخر کرے کم ہے ہر صدی اور ہر ملک میں صرف چند ہی آدمی ایسے پیدا ہوتے ہیں، جن کی ذات نوع انسان کے ليے۔۔۔"
خدایا اب میں کیا کروں گا؟ ایک تو ہندوستان کی حالت کا نقشہ کھینچا ہے۔ اس سے پہلے یہ بتانا ہے، کہ ہم کتنے نالائق ہیں۔ نالائق کا لفظ تو غیرموزوں ہوگا، جاہل کہنا چاہیئے، یہ ٹھیک نہیں، غیرمہذب۔
"ان کی اعلیٰ سیاست دانی، ان کا قومی جوش اور مخلصانہ ہمدردی سے کون واقف نہیں۔ یہ سب باتیں تو خیر آپ جانتے ہیں، لیکن تقریر کرنے میں جو ملکہ ان کو حاصل ہے۔۔۔"
ہاں وہ تقریر کا ہے سے شروع ہوتی ہے؟ ہندومسلم اتحاد پر تقریر چند نصیحتیں ضرور کرنی ہیں، لیکن وہ تو آخر میں ہیں، وہ بیچ میں مسکرانا کہاں تھا؟
"میں آپ کو یقین دلاتا ہوں، کہ آپ کے دل ہلا دیں گے، اور آپ کو خون کے آنسو رلائیں گے۔۔۔"
صدر جلسہ کی آواز نعروں میں ڈوب گئیں۔ دنیا میری آنکھوں کے سامنے تاریک ہورہی تھی۔ اتنے میں صدر نے مجھ سے کچھ کہا مجھے الفاظ بالکل سنائی نہ دیئے۔ اتنا محسوس ہوا کہ تقریر کا وقت سر پر آن پہنچا ہے۔ اور مجھے اپنی نشست پر سے اٹھنا ہے۔چنانچہ ایک نامعلوم طاقت کے زیراثر اٹھا۔ کچھ لڑکھڑایا، پھر سنبھل گیا۔ میرا ہاتھ کانپ رہا تھا۔ ہال میں شور تھا، میں بیہوشی سے ذرا ہی دور تھا۔ اور نعروں کی گونج ان لہروں کے شور کی طرح سنائی دے رہی تھی جو ڈوبتے ہوئے انسان کے سر پر سے گزر رہی ہوں۔ تقریر شروع کہاں سے ہوتی ہے؟ لیڈروں کی خودغرضی بھی بیان کرنی ہے۔ اور کیا کہنا ہے؟ ایک کہانی بھی تھی بگلے اور لومڑی کی کہانی۔ نہیں ٹھیک ہے دو بیل۔۔۔"
اتنے میں ہال میں سناٹا چھا گیا۔ لوگ سب میری طرف دیکھ رہے تھے۔ میں نے اپنی آنکھیں بند کرلیں اور سہارے کے ليے میز کو پکڑ لیا میرا دوسرا ہاتھ بھی کانپ رہا تھا، وہ بھی میں نے میز پر رکھ دیا۔ اس وقت ایسا معلوم ہو رہا تھا، جیسے میز بھاگنے کو ہے۔ اور میں اسے روکے کھڑا ہوں۔ میں نے آنکھیں کھولیں اور مسکرانے کی کوشش کی، گلا خشک تھا، بصد مشکل میں نے یہ کہا۔
"پیارے ہم وطنو!"
آواز خلاف توقع بہت ہی باریک اور منحنی سی نکلی۔ ایک دو شخص ہنس دیئے۔ میں نے گلے کو صاف کیا تو اور کچھ لوگ ہنس پڑے۔ میں نے جی کڑا کرکے زور سے بولنا شروع کیا۔ پھیپھڑوں پر یک لخت جو یوں زور ڈالا تو آواز بہت ہی بلند نکل آئی، اس پر بہت سے لوگ کھل کھلا کر ہنس پڑے۔ ہنسی تھمی، تو میں نے کہا۔
"پیارے ہم وطنو!"
اس کے بعد ذرا دم لیا، اور پھر کہا، کہ:
"پیارے ہم وطنو!"
کچھ نہ آیا، کہ اس کے بعد کیا کہنا ہے۔ سینکڑوں باتیں دماغ میں چکر لگارہی تھیں، لیکن زبان تک ایک نہ آتی تھی۔
"پیارے ہم وطنو!"
اب کے لوگوں کی ہنسی سے میں بھنا گیا۔ اپنی توہین پر بڑا غصہ آیا۔ ارادہ کیا، کہ اس دفعہ جو منہ میں آیا کہہ دوں گا، ایک دفعہ تقریر شروع کردوں، تو پھر کوئی مشکل نہیں رہے گی۔
"پیارے ہم وطنوں! بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہندوستان کی آب و ہوا خواب یعنی ایسی ہے، کہ ہندوستان میں بہت سے نقص ہیں۔۔۔ سمجھے آپ؟ (وقفہ۔۔۔) نقص ہیں۔ لیکن یہ بات یعنی امر جس کی طرف میں نےاشارہ کیا ہے گویا چنداں صحیح نہیں۔" (قہقہہ)
حواس معطل ہو رہے تھے، سمجھ میں نہ آتا تھا، کہ آخر تقریر کا سلسلہ کیا تھا۔ یک لخت بیلوں کی کہانی یاد آئی، اور راستہ کچھ صاف ہوتا دکھائی دیا۔
"ہاں تو بات دراصل یہ ہے، کہ ایک جگہ دو بیل اکھٹےرہتے تھے، جو باوجود آب وہوا اور غیر ملکی حکومت کے۔" (زور کا قہقہہ)
یہاں تک پہنچ کر محسوس کیا، کہ کلام کچھ بےربط سا ہو رہا ہے۔ میں نے کہا، چلو وہ لکڑی کے گٹھے کی کہانی شروع کردیں۔
"مثلاً آپ لکڑیوں کے ایک گٹھے کو لیجیئے لکڑیاں اکثر مہنگی ملتی ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ہندوستان میں افلاس بہت ہے۔ گویا چونکہ اکثر لوگ غریب ہیں، اس لئے گویا لکڑیوں کا گٹھا یعنی آپ دیکھئے نا۔ کہ اگر۔" (بلند اور طویل قہقہہ)
"حضرات! اگر آپ نے عقل سے کام نہ لیا تو آپ کی قوم فنا ہو جائے گی۔ نحوست منڈلا رہی ہے۔ (قہقہے اور شور وغوغا۔۔۔ اسے باہر نکالو۔ ہم نہیں سنتے ہیں۔)
شیخ سعدی نے کہا ہے۔ کہ:
چو از قوم یکے بیدانشی کرد
(آواز آئی کیا بکتا ہے۔) خیر اس بات کو جانے دیجیئے۔ بہرحال اس بات میں تو کسی کو شبہ نہیں ہوسکتا۔ کہ:
آ عندلیب مل کے کریں آہ وزاریاں
تو ہائے دل پکار میں چلاؤ ہائے گل
اس شعر نے دوران خون کو تیز کردیا، ساتھ ہی لوگوں کا شور بھی بہت زیادہ ہوگیا۔ چنانچہ میں بڑے جوش سے بولنے لگا:
"جو قومیں اس وقت بیداری کے آسمان پر چڑھی ہوئی ہیں، ان کی زندگیاں لوگوں کے ليے شاہراہ ہیں۔ اور ان کی حکومتیں چار دانگ عالم کی بنیادیں ہلا رہی ہیں۔ (لوگوں کا شور اور ہنسی اور بھی بڑھتی گئی۔) آپ کے لیڈروں کے کانوں پر خودغرضی کی پٹی بندھی ہوئی ہے۔ دنیا کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے، کہ زندگی کے وہ تمام شعبے ۔۔۔"
لیکن لوگوں کا غوغا اور قہقہے اتنے بلند ہوگئے کہ میں اپنی آواز بھی نہ سن سکتا تھا۔ اکثر لوگ اُٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ اور گلا پھاڑ پھاڑ کر کچھ کہہ رہے تھے۔ میں سر سے پاؤں تک کانپ رہا تھا۔ ہجوم میں سے کسی شخص نے بارش کے پہلے قطرے کی طرح ہمت کرکے سگریٹ کی ایک خالی ڈبیا مجھ پر پھینک دی۔ اس کے بعد چار پانچ کاغذ کی گولیاں میرے اردگرد اسٹیج پر آگیں، لیکن میں نے اپنی تقریر کا سلسلہ جاری رکھا۔
"حضرات! تم یاد رکھو۔ تم تباہ ہوجاؤ گے! تم دو بیل ہو۔۔۔"
لیکن جب بوچھاڑ بڑھتی ہی گئی ، تو میں نے اس نامعقول مجمع سے کنارہ کشی ہی مناسب سمجھی۔ اسٹیج سے پھلانگا، اور زقند بھر کے دروازے میں باہر کا رخ کیا، ہجوم بھی میرے پیچھے لپکا۔ میں نے مڑ کر پیچھے نہ دیکھا۔ بلکہ سیدھا بھاگتا گیا۔ وقتاً فوقتاً بعض نامناسب کلمے میرے کانوں تک پہنچ رہے تھے۔ ان کو سن کر میں نے اپنی رفتار اور بھی تیز کردی۔ اور سیدھا اسٹیشن کا رخ کیا، ایک ٹرین پلیٹ فارم پر کھڑی تھی میں بےتحاشہ اس میں گھس گیا، ایک لمحے کے بعد وہ ٹرین وہاں سے چل دی۔
اُس دن کے بعد آج تک نہ مریدپور نے مجھے مدعو کیا ہے۔ نہ مجھے خود وہاں جانے کی خواہش پیدا ہوئی ہے۔

میں ایک میاں ہوں


میں ایک میاں ہوں

میں ایک میاں ہوں۔ مطیع وفرمانبردار، اپنی بیوی روشن آراء کو اپنی زندگی کی ہر ایک بات سے آگاہ رکھنا اصول زندگی سمجھتا ہوں اور ہمیشہ اس پر کاربند رہا ہوں۔ خدا میرا انجام بخیرکرے۔
چنانچہ میری اہلیہ میرے دوستوں کی تمام عادات وخصائل سے واقف ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ میرے دوست جتنے مجھ کو عزیز ہیں اتنے ہی روشن آراء کو برے لگتے ہیں۔ میرے احباب کی جن اداؤں نے مجھے محصور کررکھا ہے انہیں میری اہلیہ ایک شریف انسان کے ليے باعث ذلت سمجھتی ہیں۔
آپ کہیں یہ نہ سمجھ لیں کہ خدانحواستہ وہ کوئی ایسے آدمی ہیں، جن کا ذکر کسی معزز مجمع نہ کیا جاسکے۔ کچھ اپنے ہنر کے طفیل اور کچھ خاکسار کی صحبت کی بدولت سب کے سب ہی سفید پوش ہیں۔ لیکن اس بات کو کیا کروں کہ ان کی دوستی میرے گھر کے امن میں اس قدر خلل انداز ہوتی ہے کہ کچھ خاکسار کی صحبت کی بدولت سب کے سب ہی سفید پوش ہیں۔ لیکن اس بات کو کیا کروں کہ ان کی دوستی میرے گھر کے امن میں اس قدر خلل انداز ہوتی ہے کہ کچھ کہہ نہیںسکتا۔
مثلاً مرزا صاحب ہی کو لیجیئے، اچھے خاصے اور بھلے آدمی ہیں۔ گو محکمہ جنگلات میں ایک معقول عہدے پر ممتاز ہیں لیکن شکل وصورت ایسی پاکیزہ پائی ہے کہ امام مسجد معلوم ہوتے ہیں۔ جواٴ وہ نہیں کھیلتے، گلی ڈنڈے کا ان کو شوق نہیں۔ جیب کترتے ہوئے کبھی وہ نہیں پکڑے گئے۔ البتہ کبوتر پال رکھے ہیں، ان ہی سے جی بہلاتے ہیں۔ ہماری اہلیہ کی یہ کیفیت ہے کہ محلے کا کوئی بدمعاش جوئے میں قید ہوجائے تو اس کی ماں کے پاس ماتم پرسی تک کو چلی جاتی ہیں۔ گلی ڈنڈے میں کی آنکھ پھوٹ جائے تو مرہم پٹی کرتی رہتی ہیں۔ کوئی جیب کترا پکڑا جائے تو گھنٹوں آنسو بہاتی رہتی ہیں، لیکن وہ بزرگ جن کو دنیا بھر کی زبان میں مرزا صاحب کہتے تھکتی ہے وہ ہمارے گھر میں "موئے کبوترباز" کے نام سے یاد کئے جاتے ہیں کبھی بھولے سے بھی میں آسمان کی طرف نظر اٹھا کر کسی چیل، کوئے، گدھ، شکرے کو دیکھنے لگ جاؤں تو روشن آراء کو فوراً خیال ہوجاتا ہے کہ بس اب یہ بھی کبوتربازبننےلگا۔
اس کے بعد مرزا صاحب کی شان میں ایک قصیدہ شروع ہوجاتا ہے۔ بیچ میں میری جانب گریز۔ کبھی لمبی بحر میں، کبھی چھوٹی
بحرمیں۔
ایک دن جب یہ واقعہ پیش آیا، تو میں نے مصمم ارادہ کرلیا کہ اس مرزا کمبخت کو کبھی پاس نہ پھٹکنے دوں گا، آخر گھر سب سے مقدم ہے۔ بیوی کے باہمی اخلاص کے مقابلے میں دوستوں کی خوشنودی کیا چیز ہے؟ چنانچہ ہم غصے میں بھرے ہوئے مرزا صاحب کے گھر گئے، دروازہ کھٹکھٹایا۔ کہنے لگے اندر آجاؤ۔ ہم نے کہا، نہیں آتے تم باہر آؤ۔ خیر اندر گیا۔ بدن پر تیل مل کر ایک کبوتر کی چونچ منہ میں لئے دھوپ میں بیٹھے تھے۔ کہنے لگے بیٹھ جاؤ ہم نے کہا، بیٹھیں گے نہیں، آخر بیٹھ گئے معلوم ہوتا ہے ہمارے تیور کچھ بگڑے ہوئے تھے، مرزا بولے کیوں بھئی؟ خیرباشد! میں نے کہا کچھ نہیں۔ کہنے لگےاسوقت کیسے آنا ہوا؟
اب میرے دل میں فقرے کھولنے شروع ہوئے۔ پہلے ارادہ کیا کہ ایک دم ہی سب کچھ کہہ ڈالو اور چل دو، پھر سوچا کہ مذاق سمجھے گا اس ليے کسی ڈھنگ سے بات شروع کرو۔ لیکن سمجھ میں نہ آیا کہ پہلے کیا کہیں، آخر ہم نے کہا۔
"مرزا، بھئی کبوتر بہت مہنگے ہوتے ہیں؟"
یہ سنتے ہی مرزا صاحب نے چین سے لے کر امریکہ تک کے تمام کبوتروں کو ایک ایک کرکے گنوانا شروع کیا۔ اس
 کے بعد دانے کی مہنگائی کے متعلق گل افشانی کرتے رہے اور پھر محض مہنگائی پر تقریر کرنے لگے۔ اس دن تو ہم یوں ہی چلے آئے لیکن ابھی کھٹ پٹ کا ارادہ دل میں باقی تھا۔ خدا کا کرنا کیا ہوا کہ شام کو گھر میں ہماری صلح ہوگئی۔ ہم نے کہا، چلو اب مزرا کے ساتھ بگاڑنے سے کیا حاصل؟ چنانچہ دوسرے دن مرزا سے بھی صلح صفائی ہوگئی۔
لیکن میری زندگی تلخ کرنے کے ليے ایک نہ ایک دوست ہمیشہ کارآمد ہوتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فطرت نے میری طبیعت میں قبولیت اور صلاحیت کوٹ کوٹ کر بھر دی ہے کیونکہ ہماری اہلیہ کو ہم میں ہر وقت کسی نہ کسی دوست کی عادات قبیحہ کی جھلک نظر آتی رہتی ہے یہاں تک کہ میری اپنی ذاتی شخصی سیرت بالکل ہی ناپید ہوچکی ہے۔
شادی سے پہلے ہم کبھی کبھی دس بجے اٹھا کرتے تھے ورنہ گیارہ بجے۔ اب کتنے بجے اٹھتے ہیں؟ اس کا اندازہ وہی لوگ لگاسکتے ہیں جن کے گھر ناشتہ زبردستی صبح کے سات بجے کرا دیا جاتا ہےاور اگر ہم کبھی بشری کمزوری کے تقاضے سے مرغوں کی طرح تڑکے اُٹھنے میں کوتاہی کریں تو فوراً ہی کہہ دیا جاتا کہ ہے کہ یہ نکھٹو نسیم کی صحبت کا نتیجہ ہے۔ ایک دن صبح صبح ہم نہا رہے تھے، سردی کا موسم ہاتھ پاؤں کانپ رہے تھے، صابن سر پر ملتے تھے تو ناک میں گھستا تھا کہ اتنے میں ہم نے خدا جانے کس پراسرار جذبے کے ماتحت غسل خانے میں الاپنا شروع کیا۔ اور پھر گانے لگے کہ "توری چھل بل ہے نیاری۔۔۔"اس کو ہماری انتہائی بدمذاقی سمجھا گیا، اور اس بدمذاقی کا اصل منبع ہمارے دوست پنڈت جی کو ٹھہرایا گیا۔
لیکن حال ہی میں مجھ پر ایک ایسا سانحہ گزرا ہے کہ میں نے تمام دوستوں کو ترک کر دینے کی قسم کھالی ہے۔
تین چار دن کا ذکر ہے کہ صبح کے وقت روشن آراء نے مجھ سے میکے جانے کے لیے اجازت مانگی۔ جب سے ہماری شادی ہوئی ہے، روشن آراء صرف دو دفعہ میکے گئی ہے اور پھر اس نے کچھ سادگی اور عجز سے کہا کہ میں انکار نہ کرسکا۔ کہنے لگی تو پھر میں ڈیڑھ بجے کی گاڑی میں چلی جاؤں؟ میں نے کہا اور کیا؟
وہ جھٹ تیاری میں مشغول ہوگئی اور میرے دماغ میں آزادی کے خیالات نے چکر لگانے شروع کئے۔ یعنی اب بےشک دوست آئیں، بےشک ادوھم مچائیں، میں بےشک گاؤں، بےشک جب چاہوں اُٹھوں، بےشک تھیٹر جاؤں، میں نے کہا۔
"روشن آراء جلدی کرو، نہیں تو گاڑی چھوٹ جائے گی۔" ساتھ اسٹیشن پر پر گیا۔ جب گاڑی میں سوار کراچکا تو کہنے لگی "خط ضرورلکھتے رہئے گا!" میں نے کہا"ہر روز اور تم بھی!"
"کھانا وقت پہ کھا لیا کیجیئے گا اورہاں دھلی ہوئی جرابیں اور رومال الماری کے نچلے خانے میں پڑے ہیں"۔ اس کے بعد ہم دونوں خاموش ہوگئے۔ اور ایک دوسرے کے چہرے کو دیکھتے رہے۔ اس کی آنکھو میں آنسو بھر آئے، میرا دل بھی بیتاب ہونے لگا اور جب گاڑی روانہ ہوئی تو میں دیر تک مبہوت پلیٹ فارم پر کھڑا رہا۔
آخر آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا ہوا کتابوں کی دکان تک آیا اور رسالوں کے ورق پلٹ پلٹ کر تصویریں دیکھتا رہا۔ ایک اخبار خریدا، تہہ کرکے جیب ڈالا اور عادت کے مطابق گھر کا ارادہ کیا۔
پھر خیال آیا کہ اب گھر جانا ضروری نہیں رہا۔ اب جہاں چاہوں جاؤں، چاہوں تو گھنٹوں اسٹیشن پر ہی ٹہلتا رہوں، دل چاہتا تھا قلابازیاں کھاؤں۔
کہتے ہیں، جب افریقہ کے وحشیوں کو کسی تہذیب یافتہ ملک میں کچھ عرصہ رکھا جاتا ہے تو گو وہ وہاں کی شان وشوکت سے بہت متاثر ہوتے ہیں۔ لیکن جب واپس جنگلوں میں پہنچتے ہیں تو خوشی کے مارے چیخیں مارتے ہیں۔ کچھ ایسی ہی کیفیت میرے دل کی بھی ہو رہی تھی۔ بھاگتا ہوا اسٹیشن سے آزادانہ باہر نکلا، آزادی کے لہجہ میں تانگے والے کو بلایا اور کود کر تانگے میں سوار ہوگیا۔ سگریٹ سلگا لیا، ٹانگیں سیٹ پر پھیلا دیں اور کلب کو روانہ ہوگیا۔
رستے میں ایک بہت ضروری کام یاد آیا، تانگہ موڑ کر گھر کی طرف پلٹا، باہر ہی سے نوکرکو آوازد دی۔
"امجد"
"حضور!"
"دیکھو، حجام کو جاکے کہہ دو کہ کل گیارہ بجے آئے۔"
"بہت اچھا۔"
"گیارہ بجے سن لیا نا؟ کہیں روز کی طرح پھر چھ بجے وارد نہ ہوجائے۔"
"بہت اچھا حضور۔"
"اور اگر گیارہ بجے سے پہلے آئے، تو دھکے دے کر باہر نکال دو۔"
یہاں سے کلب پہنچے، آج تک کبھی دن کے دو بجے کلب نہ گیا تھا، اندر داخل ہوا تو سنسان۔ آدمی کا نام ونشان تک نہیں سب کمرے دیکھ ڈالیے۔ بلیرڈ کا کمرہ خالی، شطرنج کا کمرہ خالی۔ صرف کھانے کے کمرے میں ایک ملازم چھریاں تیز کررہا تھا۔ اس سے پوچھا"کیوں بے آج کوئی نہیں آيا؟"
کہنے لگا "حضور آپ جانتے ہیں، اس وقت بھلا کون آتا ہے؟"
بہت مایوس ہوا باہر نکل کر سوچنے لگا کہ اب کیا کروں؟ اور کچھ نہ سوجھا تو وہاں سے مرزا صاحب کے گھر پہنچا معلوم ہوا ابھی دفتر سے واپس نہیں آئے، دفتر پہنچا دیکھ کر بہت حیران ہوئے، میں نے سب حال بیان کیا کہنے لگے۔ "تم باہر کے کمرے میں ٹھہرو، تھوڑا سا کام رہ گیا ہے، بس ابھی بھگتا کے تمہارے ساتھ چلتا ہوں، شام کا پروگرام کیا ہے؟"
میں نے کہا۔ "تھیٹر!"
کہنے لگے۔ "بس بہت ٹھیک ہے، تم باہر بیٹھو میں ابھی آیا۔"
باہرکے کمرے میں ایک چھوٹی سی کرسی پڑی تھی، اس پر بیٹھ کر انتظار کرنے لگا اور جیب سے اخبار نکال پڑھنا شروع کردیا۔ شروع سے آخر تک سب پڑھ ڈالا اور ابھی چار بجنے میں ایک گھنٹہ باقی تھا، پھر سے پڑھنا شروع کردیا۔ سب اشتھار پڑھ ڈالےاور پھر سب اشتہاروں کو دوبارہ پڑھ ڈالا۔
آخر کار اخبار پھینک کر بغیر کسی تکلف یا لحاظ کے جمائیاں لینے لگا۔ جمائی پہ جمائی۔
جمائی پہ جمائی۔ حتیٰ کہ جبڑوں میں درد ہونے لگا۔
اس کے بعد ٹانگیں ہلانا شروع کیا لیکن اس سے بھی تھک کیا۔
پھر میز پر طبلے کی گتیں بجاتا رہا۔
بہت تنگ آگیا تو دروازہ کھول کر مرزا سے کہا۔ "ابے یار اب چلتا بھی ہے کہ مجھے انتظار ہی میں مار ڈالے گا، مردود کہیں کا، سارا دن میرا ضائع کردیا۔"
وہاں سے اُٹھ کر مرزا کے گھر گئے۔ شام بڑے لطف میں کٹی۔ کھانا کلب میں کھایا۔ اور وہاں سے دوستوں کو ساتھ ليے تھیٹر گئے، رات کے ڈھائی بجے گھر لوٹے، سرہانے پر سر رکھا ہی تھا، کہ نیند نے بےہوش کردیا۔ صبح آنکھ کھلی تو کمرے میں دھوپ لہریں مار رہی تھی۔ گھڑی کو دیکھا تو پونے گیارہ بجے تھے۔ ہاتھ بڑا کر میز پر سے ایک سگریٹ اٹھایا اور سلگا کر طشتری میں رکھ دیا اور پھر اونگھنے لگا۔
گیارہ بجے امجد کمرے میں داخل ہوا کہنے لگا "حضور حجام آیا ہے۔"
ہم نے کہا۔ "یہیں بلا لاؤ"۔ یہ عیش مدت بعد نصیب ہوا، کہ بستر میں لیٹے لیٹے حجامت بنوالیں، اطمینان سے اٹھے اور نہا دھو کر باہر جانے کےليے تیار ہوئے لیکن طبیعت میں وہ شگفتگی نہ تھی، جس کی امید لگائے بیٹھے تھے، چلتے وقت الماری سے رومال نکالا تو خدا جانے کیا خیال۔ دل میں آیا، وہیں کرسی پر بیٹھ گیا۔ اور سودائیوں کی طرح اس رومال کو دیکھتا رہا۔ الماری کا ایک اور خانہ کھولا تو سردئی رنگ کا ایک ریشمی دوپٹہ نظر آیا۔ باہر نکالا، ہلکی ہلکی عطر کی خوشبو آرہی تھی۔ بہت دیر تک اس پر ہاتھ پھیرتا رہا دل بھرآیا، گھر سونا معلوم ہونے لگا۔ بہتر اپنے آپ کو سنبھالا لیکن آنسو ٹپک ہی پڑے۔ آنسوؤں کا گرنا تھا کہ بیتاب ہوگیا۔ اور سچ مچ رونے لگا۔ سب جوڑے باری باری نکال کر دیکھے لیکن نہ معلوم کیا کیا یاد آیا کہ اور بھی بےقرار ہوتا گیا۔
آخر نہ رہا گیا، باہر نکلا اور سیدھا تار گھر پہنچا۔ وہاں سے تار دیا کہ میں بہت اداس ہوں تم فوراً آجاؤ!
تار دینے کے بعد دل کو کچھ اطمینان ہوا، یقین تھا کہ روشن آراء اب جس قدر جلد ہوسکے گا، آجائے گی۔ اس سے کچھ ڈھارس بندھ گئی اور دل پر سے جیسے ایک بوجھ ہٹ گیا۔
دوسرے دن دوپہر کو مرزا کے مکان پر تاش کا معرکہ گرام ہونا تھا۔ وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ مرزا کے والد سے کچھ لوگ ملنے آئے ہیں اس ليے تجویز یہ ٹھہری کہ یہاں سے کسی اور جگہ سرک چلو۔ ہمارا مکان تو خالی تھا ہی، سب یار لوگ وہیں جمع ہوئے۔ امجد سے کہہ دیا گیا کہ حقے میں اگر ذرا بھی خلل واقع ہوا تو تمہاری خیر نہیں۔ اور پان اس طرح سے متواتر پہنچے رہیں کہ بس تانتا لگ جائے۔
اب اس کے بعد کے واقعات کو کچھ مرد ہی اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ شروع شروع میں تو تاش باقاعدہ اور باضابطہ ہوتا رہا۔ جو کھیل بھی کھیلا گیا بہت معقول طریقے سے قواعدوضاوبط کے مطابق اور متانت وسنجیدگی کے ساتھ۔ لیکن ایک دو گھنٹے کے بعد کچھ خوش طبعی شروع ہوئی، یار لوگوں نے ایک دوسرے کے پتے دیکھنے شروع کردیئے۔ یہ حالت تھی کہ آنکھ بچی نہیں اور ایک آدھ کام کا پتہ اُڑا نہیں اور ساتھ ہی قہقہےپر قہقہے اُڑنے لگے۔ تین گھنٹے کے بعد یہ حالت تھی کہ کوئی گھٹنا ہلا ہلا کر گا رہا ہے کوئی فرش پر بازو ٹیکے بجا رہا ہے۔ کوئی تھیٹر کا ایک آدھ مذاقیہ فقرہ لاکھوں دفعہ دہرا رہا ہے۔ لیکن تاش برابر ہورہا ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد دھول دھپا شروع ہوا، ان خوش فعلیوں کے دوران میں ایک مسخرے نے ایک ایسا کھیل تجویز کردیا۔ جس کے آخر میں ایک آدمی بادشاہ بن جاتا ہے ہے۔ دوسرا وزیر، تیسرا کوتوال اور جو سب سے ہار جاتا ہے۔ وہ چور۔ سب نے کہا "واہ واہ کیا بات کہی ہے"۔ ایک بولا۔ "پھر آج جو چور بنا، اس کی شامت آجائے گی"۔ دوسرے نے کہا۔ "اور نہیں تو کیا بھلا کوئی ایسا ویسا کھیل ہے۔ سلطنتوں کے معاملے ہیں سلطنتوں کے!"
کھیل شروع ہوا۔ بدقسمتی سے ہم چور بن گئے۔ طرح طرح کی سزائیں تجویز ہونے لگیں۔ کوئی کہے، "ننگے پاؤں بھاگتے ہوئے جائے اور حلوائی کی دکان سے مٹھائی خرید کر لائے"۔ کوئی کہے، "نہیں حضور، سب کے پاؤں پڑے، اور ہر ایک سے دو دو چانٹے کھائے۔" دوسرے نے کہا "نہیں صاحب ایک پاؤں پر کھڑا ہو کر ہمارے سامنے ناچے۔" آخر میں بادشاہ سلامت بولے۔ "ہم حکم دیتے ہیں کہ چور کو کاغذ کی ایک لمبوتری نوک دار ٹوپی پہنائی جائے اور اس کے چہرے پر سیاہی مل دی جائے۔ اور یہ اس حالت میں جاکر اندرسے حقے کی چلم بھر کر لائے۔" سب نے کہا۔ "کیا دماغ پایا ہے حضور نے۔ کیا سزا تجویز کی ہے! واہ واہ!"
ہم بھی مزے میں آئے ہوئے تھے، ہم نے کہا "تو ہوا کیا؟ آج ہم ہیں کل کسی اور کی باری آجائے گی۔" نہایت خندہ پیشانی سے اپنے چہرے کو پیش کیا۔ ہنس ہنس کر وہ بیہودہ سی ٹوپی پہنی، ایک شان استغنا کے ساتھ چلم اٹھائی اور زنانے کا دروازہ کھول کر باورچی خانے کو چل دیئے اور ہمارے پیچھے کمرہ قہقہوں سے گونج رہا تھا۔
صحن پر پہنچےہی تھے کہ باہر کا درواز کھلا اور ایک برقعہ پوش خاتون اندر داخل ہوئی، منہ سے برقعہ الٹا تو روشن آراء!
دم خشک ہوگیا، بدن پر ایک لرزہ سا طاری ہوگیا، زبان بند ہوگئی، سامنے وہ روشن آراء جس کو میں نے تار دے کر بلایا تھا کہ تم فوراً آجاؤ میں بہت اداس ہوں اور اپنی یہ حالت کو منہ پر سیاہی ملی ہے، سر پر وہ لمبوتری سی کاغذ کی ٹوپی پہن رکھی ہے اور ہاتھ میں چلم اٹھائے کھڑے ہیں، اور مردانے سے قہقہوں کا شور برابر آرہا ہے۔
روح منجمد ہوگئی اور تمام حواس نے جواب دے دیا۔ روشن آراء کچھ دیر تک چپکی کھڑی دیکھتی رہی اور پھر کہنے لگی۔۔۔ لیکن میں کیا بتاؤں کہ کیا کہنے لگی؟ اس کی آواز تو میرے کانوں تک جیسے بیہوشی کے عالم میں پہنچ رہی تھی۔
اب تک آپ اتنا تو جان گئے ہوں گے، کہ میں بذات خود از حد شریف واقع ہوا ہوں، جہاں تک میں، میں ہوں مجھ سے بہتر میاں دنیا پیدا نہیں کرسکتی، میری سسرال میں سب کی یہی رائے ہے۔ اور میرا اپنا ایمان بھی یہی ہے لیکن ان دوستوں نے مجھے رسوا کردیا ہے۔ اس ليے میں نے مصمم ارادہ کرلیا ہے کہ اب یا گھر میں رہوں گا یا کام پر جایا کروں گا۔ نہ کسی سے ملوں گا اور نہ کسی کو اپنے گھر آنے دوں گا سوائے ڈاکیے یا حجام کے۔ اور ان سے بھی نہایت مختصر باتیں کروں گا۔
"خط ہے؟"
"جی ہاں"
"دے جاؤ، چلے جاؤ۔"
"ناخن تراش دو۔"
"بھاگ جاؤ۔"
بس، اس سے زیادہ کلام نہ کروں گا، آپ دیکھئے تو سہیٴ!

Wednesday 21 March 2012

نیوٹرینو روشنی سے تیز سفر نہیں کرتے



نیوٹرینو روشنی سے تیز سفر 
نہیں کرتے
مسعود نبی خان
 21   مارچ ، 2012  ء

سب اٹامک‘ ذرات یا نیوٹرینو کی رفتار جانچنے کے لیے دوبارہ کیے جانے 
والے ایک تجربے کے نتائج کے مطابق یہ ذرات روشنی کی رفتار سے زیادہ تیز سفر نہیں کرتے۔
گزشتہ سال ستمبر میں کیے جانے والے تجربات کے بعد یہ سامنے آیا تھا کہ سب اٹامک ذرات روشنی کی رفتار سے تیز سفر کر سکتے ہیں لیکن ان نتائج کی تصدیق نہیں ہو سکی تھی کیونکہ ایسا ہونے کی صورت میں مشہور ماہرِ طبیعات آئن سٹائن کے نظریۂ اضافت کے ایک بڑے حصے کی تردید ہو جاتی جس کے 
تحت روشنی کی رفتار سے کوئی چیز آگے نہیں بڑھ سکتی۔

گزشتہ سال کے تجربے کے دوران روشنی کی رفتار کے ساتھ سفر کرنے والے
نیوٹرینوز کو سرن لیبیاٹری سے اٹلی میں سات سو کلو میٹر کے فاصلے پر واقع گران ساسو لیبیاٹری بھیجا گیا۔ تاہم نیوٹرینو کی واپسی روشنی کی رفتار سے ایک سیکنڈ قبل ہوئی۔
یاد رہے کہ کچھ عرصہ قبل روشنی کی رفتار سے زیادہ تیز سفر کرنے والے سب اٹامک ذرات کا پتہ چلانے والے سائنسدانوں نے اس ضمن میں مختلف انداز میں دوبارہ تجربات کرنے کا اعلان کیا تھا۔سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ مختلف طریقوں سے دوبارہ تجربات کرنے کا مقصد تجربے کے نتائج پر ہونے والی تنقید کا جواب دینا اور تحقیق کو شائع کرنے سے پہلے ماہر طبیعات کو تجزیے کا زیادہ سے زیادہ موقع دینا ہے تاکہ وہ اپنے مشاہدے کو حتمی انجام تک پہنچائیں۔

تاہم اب گران ساسو لیبارٹری میں سائنسدانوں کے ایک دوسرے گروپ نے اس تجربے کو دہرانے کے بعد یہ ظاہر کیا ہے کہ سب اٹامک ذرات بالکل روشنی کی رفتار سے ہی سفر کرتے ہیں۔سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ پہلے کیے جانے والے تجربات میں ان ذرات کی روانگی کا وقت درج نہیں کیا گیا تھا جس کا اندراج اب کی بار کیا گیا ہے۔  تاہم نتائج میں یہ سامنے آیا ہے کہ معمولی سی غلطی کی گنجائش کو مدِ نظر رکھتے ہوئے سب اٹامک ذرات روشنی کی رفتار سے ہی سفر کرتے ہیں۔
اٹلی کی گران ساسو لیبیاٹری میں آئی کیرس گروپ کے ترجمان سینڈرو سینٹرو کا کہنا ہے ’ہمارے نتائج سکول میں سیکھے جانے والی روشنی کی رفتار سے ملتے ہیں۔ انہوں نے کہا ’’میں نے نتائج پر شروع سے بھروسا نہیں کیا تھا۔ میرے خیال میں وہ کچھ حیرت انگیز شائع کرنے کی جلدی میں 
تھے اور آخر میں ان کا حساب غلط ثابت ہوا‘‘۔ 



Monday 6 February 2012

وہ ، جونبرد آزما رہی قزاق اجل و جمہوریت سے


وہ ، جونبرد آزما رہی قزاق اجل و جمہوریت سے

تاریخ گواہ ہے کہ جمہوریت کی مخالفت کرنے والے شہنشاہ ہمیشہ جمہور کے پائوں تلے روندے گئے ، مگر افسوس ،بے    نظیر بھٹو   
    اپنے والد کی طرح  جمہوریت کے لئے قربان ہوگئیں ، اب پورے ملک کے عوام کا واحد حقیقی نمائندہ کوئی نہیں





یہ حقیقت ہے مگر کسقدر ناقابل یقین، ذہن کا کوئی حصہ ، کوئی رو، کوئی خیال ابتک یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ بے نظیر بھٹو 
 ہم میں نہیں ۔ فہم ولا شعور ابتک اس بات کو رد کرتے ہیں کہ وہ جو جمہوریت کی علمبردار تھیں، اور اس کائناتی حقیقت کا ادراک رکھتی تھیں کہ قوت کا اصل سر چشمہ عوام ہیں کہ جن کے سیلاب کے آگے کوئی بند نہیں باندھا جاسکتا  عدم کی منازل طے کرچکی ہیں، اور وہ جو اتنی سحر گفتارشخصیت کی مالک تھیں کہ عوام کا بحر بیکراں ان کا پرزورخطاب سننے کے لئے ٹوٹا پڑتا تھا، اب منوں مٹی تلے ہیں، مگر شعور و دانش کو اس برہنہ حقیقت کا ادراک کرنا ہی پڑتا ہے جو اس چیز کے متقاضی ہیں کہ اس بات کو مان لیا جائے کہ دنیائے فانی کی ہر بڑی شخصیت اپنے افکار میں ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کے دشمن بھی ان کو مانتے ہیں ، مگر ان کے اصل ماننے والے ان کے عوام ہیں جن کا  جنون وہ راستہ ہے جسکی وہ قائد تھیں اور اب ان کے ماننے والے عوام کو ان کی شخصیت ، ان کے فلسفے اور ان کے افکار کو صحیح طریقے سے خراج تحسین پیش کرنے کا یہی ذریعہ ہے کہ پر سکون ہو کر ان کے نقش قدم پہ چلا جائے  کہ کسی مرحلے پہ بھی عقل و دانش کا ساتھ نہ چھوٹے ، کوئی ہمیں استعمال نہ کرپائے ، جمہوریت کی راہ میں رکاوٹوں کے ساتھ بے نظیر کا غم  شامل ہونے سے جو جنون پیدا ہوا ہے اسے کوئی دشمن اپنے لئے نہ استعمال کرنا شروع کردے اور مغموموں کو معلوم تک نہ ہو، کیونکہ یہ طرز عمل اس راستے کو اور اس پہ چلنے والوں کو اپنے ھدف سے دور کردے گا، او ر یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ بے نظیر کو راہ و منزل جمہوریت کتنی عزیز تھی ۔
اور یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جمہوریت کا راستہ آسان نہیں ہے، یہ اس عشق کی طرح ہے جسکی راہ میں ہمیشہ آگ و خون کے دریا پڑتے ہیں جنہیں تیر کر پار کرنا پڑتا ہے ، بے نظیر کے چاہنے والوں کو بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ ان کے عقیدت مندوں کو اب اس مشعل کو لیکر آگے بڑھنا ہے جو وہ جلا گئی ہیں راستہ اب وہیں سے طے کرنا ہے جہاں وہ ہم کو چھوڑ گئی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ راستہ بھی وہی چلنا ہے جس کی ادھوری راہوں پہ وہ ہم سے بچھڑی ہیں، وہی کرنا ہے جو وہ کررہی تھیں ، ہم سب ہی یہ جانتے ہیں کہ وہ کیا کررہی تھیں حالانکہ جمہوریت دشمن اپنی بھر پور میڈیا توانائیاں استعمال کرکے ان کی زندگی میں ہی ان کی کردار کشی پہ مائل تھے ، ان کو راستے سے بھٹک جانے والی گردان رہے تھے، اقتدار کی خاطر اپنی ریاضت بھی قربان کردینے والی قرار دے رہے تھے ، مگر چشم فلک نے دیکھا کہ وہ اپنی زندگی قربان کرگئیں ، اقتدار کے بھوکے تو ہمیشہ اپنی جان سنبھال کررکھتے ہیں ، حصاروں میں رہتے ہیں وہ عوام کی آواز پہ بے خود ہوکر’’ سن روف‘‘ کھول کر باہر نہیں آتے، کیونکہ ان کی منزل  ذاتی اقتدار ہوتی ہے، اور جو عوام کا اقتدار چاہتے ہیں وہ اپنی جانیں قربان کرتے ہیں، بے نظیر نے بھی یہی کیا عوام کے اقتدار کی خاطر وہ اپنی جان پہ کھیل گئیں ،جس راستے کو انہوں نے چنا اور جس راستے پہ انہوں نے چلنا شروع کردیا تھا وہ جمہوریت دشمنوں کو پسند نہیں آیا ، ان پہ نکتہ چینی کرکے جب ان کے تمام حربے ناکام ہوگئے تو انہوں نے ان کے وجود کو ختم کردیا، مگر بے نظیر صرف وجود کا ہی تو نام نہیں تھا وہ تو ایک فلسفہ تھا ، ایک شعور تھا، ایک منزل تھا ، ایک آگہی تھی جو اب بھی باقی ہے۔
ایک زمانہ تھا جب برطانیہ کے بادشاہ چارلس اوّل اور فرانس کے بادشاہ لوئی ھفدہ کو سپرد دار کیا گیا ، چونکہ وہ جمہور کی آزادی کے قائل نہ تھے اور اپنے ذاتی اقتدار کو طول دینا چاہتے تھے لہذہ عوام نے انہیں قابل گردن زنی سمجھا مگر صد حیف کہ زمانے کی جدت نے بوروژوا اقدار کو مائل بہ ترقی نہ کیا ، اور آج اس زمانے میں بھی پرولتاری اکثریت کو سامراجیت و آمریت کے عفریت نے اپنی اسی خوں آشامی فطرت کے پنجوں میں جکڑ رکھا ہے، اور فی زمانہ اس کا شکار ہونے والوں میں ذوالفقار علی بھٹو اور انکی بیٹی شامل ہیں، مگر ان دونوں زمانوں میں فرق یہ ہے کہ پہلے بادشاہ روندے گئے اور اب جمہور کے نمائندگان سے حق زندگی چھینا جارہا ہے ۔
ذوالفقار علی بھٹو وہ مقبول و منتخب وزیر اعظم تھے جنہوں نے پاکستان کو بہت پستی سے بہت اونچائیوں تک پہنچا دیا تھا ، ان کا پاکستان کو دیا گیا سب سے منفرد تحفہ جوہری قوت تھی جو وہ پاکستان لے آئے ، پھر انہوں نے نوے ہزار پاکستانی جنگی قیدیوں کو بھارت سے غیر مشروط رہائی دلوائی اور ملک میں اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد کروایا جس نے بین الاقوامی طور پر پاکستان پہ برسوں چھائی رہنے والی آمریت اور 1971 ء میں ہونے والی شکست کے داغوں کو دھو کر اسے مسلم امہ کی سرفہرست اقوام میں لا کھڑا کیا۔
وہ صرف ایک غلطی کے سزاوار تھے کہ انہوں نے ہنری کیسنجر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرلی تھی جو چلی کے صدر سلواڈور ایلنڈی کے بہیمانہ قتل کے مرکزی محرک تھے ، اور ساتھ ہی ساتھ کیسنجر کی اس دھمکی کو بھی خاطر میں نہ لائے جسمیں انہوں نے ان کو’’ عبرت کا مقام‘‘ بنانے کا کہا تھا۔ ان کو اپنے دور میں بہت زیادہ پر آشوب بین الاقوامی حالات کا سامنا کرنا پڑا ، اتنا کہ وہ عوام سے کئے گئے اپنے وعدے روٹی ، کپڑا،  اور مکان کا وعدہ مکمل طور پہ ایفاء نہ کرپائے اور جب اسکا وقت آیا ، ان کا اقتدار ختم کروا دیا گیا ، مگر اس دوران انہوں نے اپنی پیاری بیٹی کی تربیت بھی تقریباً مکمل کرلی تھی، ان سے تربیت حاصل کرنے والی ان کی بیٹی بے نظیر میں بے نظیر صلاحیتیں و قوتیں پوشیدہ تھیں اپنے دور اقتدار میں بے نظیر نے اپنی ان بے پایاں قوتوں کا مظاہرہ کیا 12 گھنٹے سے زیادہ طویل کابینہ کے اجلاسوں میں شرکت کی اور خود کوچوبیس گھنٹوں میں سے صرف چار گھنٹے نیند کا عادی بنایا، وہ زمانہ امن میں بھی ہنگامی و جنگی بنیادوں پہ کام کرتی تھیں، ایک خاتون ہوتے ہوئے ان کی بلند حوصلگی کی اس سے بڑی کیا مثال ہوگی کہ انہوں نے سیاچن گلیشیئر کا دورہ کیا، جبکہ پاکستان کے وزرائے اعظم میں معدودے چند ہی وہاں گئے ہونگے جبکہ وہ مرد تھے ۔
بے نظیر کی عوام میں مقبولیت ’’گارجین‘‘ کے ولیم ڈیریمپیل نے ایک نئے زاویئے سے دیکھی وہ لکھتا ہے کہ ’’بے نظیر کی پہلی زبان انگریزی تھی جبکہ وہ اردو اسطرح بولتی تھیں جیسے کہ کوئی بہت اچھی طرح اردو پڑھا ہوا غیر ملکی بولتا ہو صرف و نحو سے عاری اردو ،یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ تھا وہ اردو نہیں جانتے تھے مگر عوام میں مقبول تھے، بے نظیر سندھی بھی اچھی طرح نہیں بول سکتی تھیں مگر سندھیوں میں بے پناہ مقبول تھیں اسکی وجہ عوام کاصرف وہ اعتماد تھا جو کسی خاص شخصیت پر ہوتا ہے‘‘۔
 دراصل قائد اعظم نے قوم سے آزادی کا وعدہ کیا اور آزادی دلائی ، عوام کو ان پر اعتماد تھا، ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے سے بھٹو خاندان نے عوام کو غریبی سے نجات کی نوید سنائی ، اور عوام کے لئے دوسروں سے بہت زیادہ کچھ نہ کچھ کیا بھی، اسی لئے عوام کا ان پہ اعتماد تھا اور اسی لئے یہ نعرہ ہمیں سنائی دیتا تھا ’’بے نظیر آئیگی ، روزگار لائے گی‘‘ ، وہ نہیں جانتے تھے کس طرح روز گار لائے گی مگر انہیں بس اعتماد تھا کہ بے نظیر آئیگی تو خوشحالی بھی آئیگی اور ان کی ایسی مسیحا بنے گی جو انکے بڑے بڑے دکھوں کا کافی حد تک مداوا کردیگی۔
مگر افسوس ، وہ اب ہم میں نہیں وہ آواز جو ایک امید تھی ، ایک نوید تھی صبح نوکی، وہ جو ایک تصویر تھی عزم نو کی، وہ سحر آگیں شخصیت اپنے ساتھ کروڑوں لوگوں کی امیدیں لیکر کبھی نظر نہ آنے کے لئے ہم سے جدا ہوچکی ہے، مگر وہ اب بھی اپنے دکھا ئے گئے جمہوریت کے  راستے میںعزم و حوصلے کی ایک روشن تر قندیل بن کر کھڑی ہے کہ جسکی روشنی میں جمہوریت کی منزل اب سب پہ واضح ہے، ہاں اب اگر کڑا وقت ہے تو وہ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت پہ ہے کہ وہ کیسے ان صبر آزما لمحوں میں خود کو سنبھالتے ہوئے بھٹو کا زمانہ زندہ رکھیں گے۔  
(یہ مضمون میں نے بے نظیر بھٹو کےغیر متوقع طور پر ایک حملے میں ہلاکت پر لکھا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔اس وقت بوجوہ شائع نہ ہوسکا، اور اب چونکہ اس کا وقت گذر چکا ہے مگر اپنے قارئین کے لئے میں اسے پیش کررہا ہوں)
    

Thursday 26 January 2012

اردو हिन्दी English Besan ki Roti Recipe

उर्दू, अंग्रेजी और हिन्दी में,   In Urdu, English & hindi   اردو ہندی اور انگریزی میں


بیسن کی روٹی کی ترکیب

اجزا
3 کپ بیسن کا آٹا
½ 1 کپ گندم کا آٹا
½ چائے کا چمچہ نمک
¼ چائے کا چمچہ زیرہ
¼ چائے کا چمچہ پسی ہوئی لال مرچ
2 کھانے کے چمچے تیل
بہت تھوڑی سی ہینگ
2 کپ گھی
ہدایات
گندم کے آٹے اور بیسن کو ملا لیں، اس میں نمک شامل کردیں، تھوڑا پانی ملا کر گوندھیں، یہ تھوڑا نرم ہونا چاہئے، پھر اس کو پانچ منٹ تک ریفریجریٹر میں رکھ دیں۔ اب گوندھے ہوئے اس آٹے کے چار پیڑے بنائیں ، اور بیلن سے اس کی چپاتیاں بنالیں۔اس پر تیل یا گھی چپڑ لیں اور پھر سے اس کے پیڑے بنا کر اس کی چپاتیاں بنالیں، اور ہلکی آنچ پر اپنے فرائنگ پین کے حساب سے تیل ڈال کر اسے تلیں، ایک دفعہ پلٹنے پر یہ اس جانب سے ہلکی گولڈن ہوجائے گی ، دونوں طرف سے اسے پکا کر گولڈن برائون کرلیں۔ پھر لہسن کی چٹنی ، اچار یا رائتہ کے ساتھ اسے پیش کریں۔

5  سے 6 افراد کے لئے کافی ہے

مسعود نبی خان
 Besan ki Roti Recipe
Ingredients
3 cups besan ata
1½ cup wheat flour
½ tsp. salt
¼ tsp cumin seeds (Zeera)
¼ tsp. chili (Lal Mirch) powder
2 tbs. oil
1 pinch asafetida (Heeng)
2 cups ghee


Instructions
Mix besan and wheat flour. Add salt and mix. Add a little water and mix. The consistency should be soft and putty-like. It helps if you kneed it with a wet hand. 
Keep the dough in the fridge for 5 minutes. 
Divide this dough into 4 portions. Roll each portion into a ball and flatten it into a chapati shape (round). 
Spread a little oil or ghee on it. Make a cut in it from the center to the edge. Pick up the cut edge and start rolling it so that you end up with a cone. 
With the palm of your hand flatten it while twisting it so that it once again forms a ball type thing. Flatten it again in chapati shape and fry it on medium to low heat with three tbs. oil or more depending on the size of the frying pan. Turn it over once the bottom is golden brown.
When both sides are golden brown it’s done.
Serve with garlic chutney, achar or raita.

Serving: 5 to 6



Masood Nabi Khan
बेसन की रोटी की तरकीब
सामग्री
3 कप बेसन का आटा
½ 1 
कप गेहूं का आटा
½ 
चाय का चमचा नमक
¼ 
चाय का चमचा आभरह
¼ 
चाय का चमचा पसी हुई लाल मिर्च
2 
खाने के चम्मच तेल
बहुत थोड़ी सी हीनग
2 
कप घी
निर्देश
गेहूं के ाटे और बेसन को मिला लें, उसमें नमक शामिल कर, थोड़ा पानीमिलाकर गोंधें, यह थोड़ा नरम होना चाहिए, फिर उसको पाँच मिनट तकरीफ़्रीजरेटर में रख दें.  अब गोंधे हुए ाटे चार पीड़े करें, और बेलन उसकीचपातयाँ बनालें. उस पर तेल या घी चपड़ करें और फिर से उसके पीड़े बना कर  उसकी  चपातयाँ  बनालें और हल्की इंच अपने फ़्रानग पैन के हिसाबसे तेल डाल कर उसे तलें, एक बार पलटने पर यह द्वारा हल्की गोल्डन हो जाएगी, दोनों तरफ से उसे  पक्का  कर  गोल्डन ब्रायोन करें.  फिर लहसुन कीचटनी,  अचार या रायता के साथ इसे पेश करें.

5 से 6 लोगों के लिए काफी है
मसूद नबी खान