Monday 6 February 2012

وہ ، جونبرد آزما رہی قزاق اجل و جمہوریت سے


وہ ، جونبرد آزما رہی قزاق اجل و جمہوریت سے

تاریخ گواہ ہے کہ جمہوریت کی مخالفت کرنے والے شہنشاہ ہمیشہ جمہور کے پائوں تلے روندے گئے ، مگر افسوس ،بے    نظیر بھٹو   
    اپنے والد کی طرح  جمہوریت کے لئے قربان ہوگئیں ، اب پورے ملک کے عوام کا واحد حقیقی نمائندہ کوئی نہیں





یہ حقیقت ہے مگر کسقدر ناقابل یقین، ذہن کا کوئی حصہ ، کوئی رو، کوئی خیال ابتک یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ بے نظیر بھٹو 
 ہم میں نہیں ۔ فہم ولا شعور ابتک اس بات کو رد کرتے ہیں کہ وہ جو جمہوریت کی علمبردار تھیں، اور اس کائناتی حقیقت کا ادراک رکھتی تھیں کہ قوت کا اصل سر چشمہ عوام ہیں کہ جن کے سیلاب کے آگے کوئی بند نہیں باندھا جاسکتا  عدم کی منازل طے کرچکی ہیں، اور وہ جو اتنی سحر گفتارشخصیت کی مالک تھیں کہ عوام کا بحر بیکراں ان کا پرزورخطاب سننے کے لئے ٹوٹا پڑتا تھا، اب منوں مٹی تلے ہیں، مگر شعور و دانش کو اس برہنہ حقیقت کا ادراک کرنا ہی پڑتا ہے جو اس چیز کے متقاضی ہیں کہ اس بات کو مان لیا جائے کہ دنیائے فانی کی ہر بڑی شخصیت اپنے افکار میں ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کے دشمن بھی ان کو مانتے ہیں ، مگر ان کے اصل ماننے والے ان کے عوام ہیں جن کا  جنون وہ راستہ ہے جسکی وہ قائد تھیں اور اب ان کے ماننے والے عوام کو ان کی شخصیت ، ان کے فلسفے اور ان کے افکار کو صحیح طریقے سے خراج تحسین پیش کرنے کا یہی ذریعہ ہے کہ پر سکون ہو کر ان کے نقش قدم پہ چلا جائے  کہ کسی مرحلے پہ بھی عقل و دانش کا ساتھ نہ چھوٹے ، کوئی ہمیں استعمال نہ کرپائے ، جمہوریت کی راہ میں رکاوٹوں کے ساتھ بے نظیر کا غم  شامل ہونے سے جو جنون پیدا ہوا ہے اسے کوئی دشمن اپنے لئے نہ استعمال کرنا شروع کردے اور مغموموں کو معلوم تک نہ ہو، کیونکہ یہ طرز عمل اس راستے کو اور اس پہ چلنے والوں کو اپنے ھدف سے دور کردے گا، او ر یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ بے نظیر کو راہ و منزل جمہوریت کتنی عزیز تھی ۔
اور یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جمہوریت کا راستہ آسان نہیں ہے، یہ اس عشق کی طرح ہے جسکی راہ میں ہمیشہ آگ و خون کے دریا پڑتے ہیں جنہیں تیر کر پار کرنا پڑتا ہے ، بے نظیر کے چاہنے والوں کو بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ ان کے عقیدت مندوں کو اب اس مشعل کو لیکر آگے بڑھنا ہے جو وہ جلا گئی ہیں راستہ اب وہیں سے طے کرنا ہے جہاں وہ ہم کو چھوڑ گئی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ راستہ بھی وہی چلنا ہے جس کی ادھوری راہوں پہ وہ ہم سے بچھڑی ہیں، وہی کرنا ہے جو وہ کررہی تھیں ، ہم سب ہی یہ جانتے ہیں کہ وہ کیا کررہی تھیں حالانکہ جمہوریت دشمن اپنی بھر پور میڈیا توانائیاں استعمال کرکے ان کی زندگی میں ہی ان کی کردار کشی پہ مائل تھے ، ان کو راستے سے بھٹک جانے والی گردان رہے تھے، اقتدار کی خاطر اپنی ریاضت بھی قربان کردینے والی قرار دے رہے تھے ، مگر چشم فلک نے دیکھا کہ وہ اپنی زندگی قربان کرگئیں ، اقتدار کے بھوکے تو ہمیشہ اپنی جان سنبھال کررکھتے ہیں ، حصاروں میں رہتے ہیں وہ عوام کی آواز پہ بے خود ہوکر’’ سن روف‘‘ کھول کر باہر نہیں آتے، کیونکہ ان کی منزل  ذاتی اقتدار ہوتی ہے، اور جو عوام کا اقتدار چاہتے ہیں وہ اپنی جانیں قربان کرتے ہیں، بے نظیر نے بھی یہی کیا عوام کے اقتدار کی خاطر وہ اپنی جان پہ کھیل گئیں ،جس راستے کو انہوں نے چنا اور جس راستے پہ انہوں نے چلنا شروع کردیا تھا وہ جمہوریت دشمنوں کو پسند نہیں آیا ، ان پہ نکتہ چینی کرکے جب ان کے تمام حربے ناکام ہوگئے تو انہوں نے ان کے وجود کو ختم کردیا، مگر بے نظیر صرف وجود کا ہی تو نام نہیں تھا وہ تو ایک فلسفہ تھا ، ایک شعور تھا، ایک منزل تھا ، ایک آگہی تھی جو اب بھی باقی ہے۔
ایک زمانہ تھا جب برطانیہ کے بادشاہ چارلس اوّل اور فرانس کے بادشاہ لوئی ھفدہ کو سپرد دار کیا گیا ، چونکہ وہ جمہور کی آزادی کے قائل نہ تھے اور اپنے ذاتی اقتدار کو طول دینا چاہتے تھے لہذہ عوام نے انہیں قابل گردن زنی سمجھا مگر صد حیف کہ زمانے کی جدت نے بوروژوا اقدار کو مائل بہ ترقی نہ کیا ، اور آج اس زمانے میں بھی پرولتاری اکثریت کو سامراجیت و آمریت کے عفریت نے اپنی اسی خوں آشامی فطرت کے پنجوں میں جکڑ رکھا ہے، اور فی زمانہ اس کا شکار ہونے والوں میں ذوالفقار علی بھٹو اور انکی بیٹی شامل ہیں، مگر ان دونوں زمانوں میں فرق یہ ہے کہ پہلے بادشاہ روندے گئے اور اب جمہور کے نمائندگان سے حق زندگی چھینا جارہا ہے ۔
ذوالفقار علی بھٹو وہ مقبول و منتخب وزیر اعظم تھے جنہوں نے پاکستان کو بہت پستی سے بہت اونچائیوں تک پہنچا دیا تھا ، ان کا پاکستان کو دیا گیا سب سے منفرد تحفہ جوہری قوت تھی جو وہ پاکستان لے آئے ، پھر انہوں نے نوے ہزار پاکستانی جنگی قیدیوں کو بھارت سے غیر مشروط رہائی دلوائی اور ملک میں اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد کروایا جس نے بین الاقوامی طور پر پاکستان پہ برسوں چھائی رہنے والی آمریت اور 1971 ء میں ہونے والی شکست کے داغوں کو دھو کر اسے مسلم امہ کی سرفہرست اقوام میں لا کھڑا کیا۔
وہ صرف ایک غلطی کے سزاوار تھے کہ انہوں نے ہنری کیسنجر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرلی تھی جو چلی کے صدر سلواڈور ایلنڈی کے بہیمانہ قتل کے مرکزی محرک تھے ، اور ساتھ ہی ساتھ کیسنجر کی اس دھمکی کو بھی خاطر میں نہ لائے جسمیں انہوں نے ان کو’’ عبرت کا مقام‘‘ بنانے کا کہا تھا۔ ان کو اپنے دور میں بہت زیادہ پر آشوب بین الاقوامی حالات کا سامنا کرنا پڑا ، اتنا کہ وہ عوام سے کئے گئے اپنے وعدے روٹی ، کپڑا،  اور مکان کا وعدہ مکمل طور پہ ایفاء نہ کرپائے اور جب اسکا وقت آیا ، ان کا اقتدار ختم کروا دیا گیا ، مگر اس دوران انہوں نے اپنی پیاری بیٹی کی تربیت بھی تقریباً مکمل کرلی تھی، ان سے تربیت حاصل کرنے والی ان کی بیٹی بے نظیر میں بے نظیر صلاحیتیں و قوتیں پوشیدہ تھیں اپنے دور اقتدار میں بے نظیر نے اپنی ان بے پایاں قوتوں کا مظاہرہ کیا 12 گھنٹے سے زیادہ طویل کابینہ کے اجلاسوں میں شرکت کی اور خود کوچوبیس گھنٹوں میں سے صرف چار گھنٹے نیند کا عادی بنایا، وہ زمانہ امن میں بھی ہنگامی و جنگی بنیادوں پہ کام کرتی تھیں، ایک خاتون ہوتے ہوئے ان کی بلند حوصلگی کی اس سے بڑی کیا مثال ہوگی کہ انہوں نے سیاچن گلیشیئر کا دورہ کیا، جبکہ پاکستان کے وزرائے اعظم میں معدودے چند ہی وہاں گئے ہونگے جبکہ وہ مرد تھے ۔
بے نظیر کی عوام میں مقبولیت ’’گارجین‘‘ کے ولیم ڈیریمپیل نے ایک نئے زاویئے سے دیکھی وہ لکھتا ہے کہ ’’بے نظیر کی پہلی زبان انگریزی تھی جبکہ وہ اردو اسطرح بولتی تھیں جیسے کہ کوئی بہت اچھی طرح اردو پڑھا ہوا غیر ملکی بولتا ہو صرف و نحو سے عاری اردو ،یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ تھا وہ اردو نہیں جانتے تھے مگر عوام میں مقبول تھے، بے نظیر سندھی بھی اچھی طرح نہیں بول سکتی تھیں مگر سندھیوں میں بے پناہ مقبول تھیں اسکی وجہ عوام کاصرف وہ اعتماد تھا جو کسی خاص شخصیت پر ہوتا ہے‘‘۔
 دراصل قائد اعظم نے قوم سے آزادی کا وعدہ کیا اور آزادی دلائی ، عوام کو ان پر اعتماد تھا، ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے سے بھٹو خاندان نے عوام کو غریبی سے نجات کی نوید سنائی ، اور عوام کے لئے دوسروں سے بہت زیادہ کچھ نہ کچھ کیا بھی، اسی لئے عوام کا ان پہ اعتماد تھا اور اسی لئے یہ نعرہ ہمیں سنائی دیتا تھا ’’بے نظیر آئیگی ، روزگار لائے گی‘‘ ، وہ نہیں جانتے تھے کس طرح روز گار لائے گی مگر انہیں بس اعتماد تھا کہ بے نظیر آئیگی تو خوشحالی بھی آئیگی اور ان کی ایسی مسیحا بنے گی جو انکے بڑے بڑے دکھوں کا کافی حد تک مداوا کردیگی۔
مگر افسوس ، وہ اب ہم میں نہیں وہ آواز جو ایک امید تھی ، ایک نوید تھی صبح نوکی، وہ جو ایک تصویر تھی عزم نو کی، وہ سحر آگیں شخصیت اپنے ساتھ کروڑوں لوگوں کی امیدیں لیکر کبھی نظر نہ آنے کے لئے ہم سے جدا ہوچکی ہے، مگر وہ اب بھی اپنے دکھا ئے گئے جمہوریت کے  راستے میںعزم و حوصلے کی ایک روشن تر قندیل بن کر کھڑی ہے کہ جسکی روشنی میں جمہوریت کی منزل اب سب پہ واضح ہے، ہاں اب اگر کڑا وقت ہے تو وہ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت پہ ہے کہ وہ کیسے ان صبر آزما لمحوں میں خود کو سنبھالتے ہوئے بھٹو کا زمانہ زندہ رکھیں گے۔  
(یہ مضمون میں نے بے نظیر بھٹو کےغیر متوقع طور پر ایک حملے میں ہلاکت پر لکھا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔اس وقت بوجوہ شائع نہ ہوسکا، اور اب چونکہ اس کا وقت گذر چکا ہے مگر اپنے قارئین کے لئے میں اسے پیش کررہا ہوں)