Saturday 31 December 2011

کامیاب اداروں کی اقدار


کامیاب اداروں کی اقدار

اس میں کوئی شک نہیں کہ اعلیٰ کارکردگی اور اچھی شہرت کے حامل کاروبار  کے برانڈز بھی عموماً اعلیٰ اور معیاری ہی ہوتے ہیں ، جس میں پراڈکٹس، سروسز، کمیونیکیشن، لب و لہجہ، ڈیجیٹل ، ریٹیل کے معیار کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ جن کا مقصد اور تصور بھی تقریباً یکساں ہوتا ہے ۔ہاں ایک بات جو اس سلسلسے میں اکثر نظر انداز کردی جاتی ہے وہ ہے ادارے کی کارکردگی جو کسی صارف کو اقدار ثقافت اور رویئے کے ذریعئے زندگی عطا کرتی ہے۔ اور صارفین کے بارے میں تجربات کو تقویت دیتے ہوئے انہیں ایک ایسے مسلسل ، منفرد اور متعلقہ برانڈ سے روشناس کراتی ہے جو ان کی جانب سے فراہم کی جانے والی بنیادی مصنوعات کا اہم ترین جزو ہوتی ہے۔



لہذا ہمیں دیکھنا ہے کہ وہ کیا مشکلات ہیں جو کاروبار میں تبدیلی کے لئے اندرونی و بیرونی طور پر کسی کاروبار میں اقدار کی تخلیق کے ضمن میں پیش آسکتی ہیں۔
اوّل، اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کمپنی کے تصورات کی تبدیلی لوگوں کے ایک چھوٹے سے گروپ تک ہی محدود رہتی ہے ، جن میں عموماً ادارے کے سینئر حکام ہی ہوتے ہیں، جو کمپنی کی حقیقی کارکردگی اور صارفین سے رابطے کے سلسلے میںعموماً کچھ فاصلے پر ہی ہوتے ہیں اوران دونوں میں ان کا کردار صرف ہدایات تک محدود ہوتا ہے ۔ لہذہ حقیقی تبدیلی اسی وقت آتی ہے جب ادارے کا ہر کارکن تبدیلی کے لئے پر عزم ہو اور اپنے برانڈ کی بہتری کے عزم پر کاربند ہو۔



دوئم ،  ملازمین اکثر مختلف طبقہء زندگی اور مختلف ثقافتی پس منظر اور عقائد سے تعلق رکھتے ہیں ، لہذہ ایک مشکل یہ بھی ہوتی ہے کہ ان سب علیحدہ علیحدہ طبقہء فکر و زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو ایک ہی مقصد کے لئے ذہنی طور پر یکجا کرنا تاکہ وہ اپنے روز مرہ کے فرائض کی انجام دہی کے دوران اپنے برانڈ کی ترویج کا باعث بنیں ۔ اگر ان کی صحیح طریقے سے رہنمائی کی جائے تو تمام کارکنان کام کے صحیح اور ہر لحاظ سے سود مند طریقہء کار کو اپنائیں گے، جس میںصارفین کو فراہم کی جانے والی خدمات  پر توجہ کے ارتکاز میں واضح فرق محسوس کیا جاسکتا ہے، جس کی وجہ سے صارفین کا بھی برانڈ سے لگائو حقیقی ہوجاتا ہے کیونکہ خدات کی اس طرح فراہمی سے  صارفین کو  بھی برانڈ پراطمینان کی حد تک اعتمادبخشتا ہوجاتا ہے۔



سوئم ،  جبکہ دوسری جانب صارفین کی معلومات کا دائرہ مسلسل وسیع ہورہا ہے اور وہ اچھے برے برانڈ میں فرق کو واضح طور پر سمجھتے ہیں اس کی بنیادی وجہ ان کی معلومات میں انٹر نیٹ کے ذریعے سے ہونے والا انقلابی اضافہ ہے، اس کے علاوہ  عوام الناس کی عمومی اعلیٰ تعلیمی استعداد میں اضافہ ہے ، اوراس وجہ سے ان کی جانب سے برانڈ ز کی جانب سے پیش کردہ سہولیات اور خدمات میں بین الاقوامی معیار کی توقعات ہیں۔ کمپنیوں کو اپنے صارفین سے ملاقات اور بات چیت یعنی ہر طریقے سے رابطہ رکھنا چاہئے بصورت دیگر ان کی مصنوعات و خدمات کے صارفین کے درمیان غیر مقبول ہونے کا شدید خطرہ رہتا ہے۔ فی زمانہ صارفین برابری کی بنیاد پر مصنوعات کی مسابقت میں خدمات کی زیادہ سے زیادہ فراہمی کی توقع رکھتے ہیں  جیسے کہ موبائل ٹیلی کام سیکٹر۔اس ضمن میں میڈیا کا کردار بھی انتہائی اہم ہے کہ وہ اطلاعات کی وصولی پر فوراً ہی صارفین کے نکتہء نظر کی تبدیلی کا اہم سبب بنتے ہیں۔



کمپنی کس طرح کارکنان کی اقدار کو ترتیب دے کہ وہ بہتر تبدیلی کا سبب بنیں ؟
کمپنیوں کو اپنے تصور کے حساب سے اپنے کارکنان کا دل و دماغ جیت لینا چاہئے  (یعنی کمپنیوں کو یہ سمجھ بوجھ ہونی چاہئے کہ وہ کس طرح اپنی حکمت عملی ترتیب دیں) یعنی بزنس میں بہتر بنیادی تبدیلی کے لئے تمام کارکنان کو پوری محنت اور سچی لگن سے کام کرنا ہوتا ہے اور اسی لئے ان کی بہتر تربیت کرنی ہوتی ہے تاکہ اس کے نتائج خود بزنس اور صارفین کے لئے بہترین ہوں۔
ملازمین کو اس ضمن میں تربیت دینی چاہئیں اور ان کے عملی نفاذ پر ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے، یہ طریقہء کار ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ ادارے کے حکام بالا سے احکامات ملازمین تک آگئے ، بلکہ اس کے لئے باقاعدہ ہر ڈپارٹمنٹ میں ایک ایسا سینئر ملازم ان احکامات کے نفاذ کو ممکن بنائے جو ان کے صحیح طریقے سے نفاذ کا طریقہ جانتا ہو۔ ملازمین کام پر اسی طرح آئیں جیسے وہ اپنی ذاتی زندگی کا کوئی کام انجام دینے آرہے ہوں جیسا کہ دنیا کے بیشتر خطوں میں ہوتا ہے کہ لوگوں کا معاش ان کی ذاتی زندگی اور معاشرے میں اسی طرح ان کی پہچان ہوتا ہے جیسے کہ ان کی فیملی یا ان کا گھر، اور وہ کام کی جگہ پر بھی اپنی زندگی کی قدروں کا خیال رکھتے نظر آتے ہیں۔
اقدار و ثقافت کے کے ذریعے بزنسز کے بہتر کارکردگی میں ڈھلنے کی مثالیں 21  ویں صدی میں ذرا کم ہی ملیں گی اور ان کا بیان کرنا بھی ذرا مشکل ہی ہوگا مگر ایسا اب بھی ہوتا ہے ۔ ایسی ہی ایک مثال ایک ایسے برانڈ کی ہے جو پہلے ہی دن سے اپنی ثقافت اور اقدار کی مسلسل ترویج میں کامیاب ہے اور وہ ہے (متحدہ عرب امارات کی )  امارات ائیر لائن کی ، جہاں ملازمین کو اپنے برانڈ کی ہی سمت میں سوچنے اور اس کے مطابق کام کرنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ وہ سب روبوٹ نہیں ہیں مگر وہ سب آپس میں مشترکہ اقدارمیں 
 کے شریک ہیں، دیگر ائیر لائنوں کے بر عکس امارات ائیر لائن کے عملے کی اس بات پر حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ اپنے ذاتی کپڑے پہنیں ، اس طرح وہ زیاد ہ قابل رسائی اور زیادہ معلومات فراہم کرنے والے دوست کی حیثیت میں   
نظر آتے ہیں۔
روائتی طور پر بزنسز میں اقدار اور رویوں کی تبدیلی کافی مشکل امر ہوتا ہے
 کیونکہ اس میں افسر شاہی کی من مانیاں اور رکاوٹیں، صارفین پر مکمل توجہ کا فقدان، مسابقت اور ادارے کو مجموعی طور پر اپنائے جانے کی کمی شامل ہوتی ہے اس طرح جو چیز زیادہ منظر پر آتی ہے وہ صارفین کو خدمات میں کمزوری اور کمی، کارکردگی میں کمی، کام کی نوعیت کے حساب سے اہل افراد کی تعیناتی کی کمی، اس کے علاوہ دیگر عمومی امور میں بنیادی خرابیاں ہوتی ہیں اور انہیں دیکھ کر دیگر اسٹیک ہولڈرز خاص کر میڈیا حملہ کردیتے ہیں۔ایسے بزنسز میں عموماً کارکنان کی بڑی تعداد خدمات انجام دیتی ہے ، اور اسی لئے کام کی صحیح درجہ بندی اور کارکردگی کا اسراع حاصل کرنا ذرا مشکل ہوتا ہے ، کیونکہ یہ انسانی فطرت ہوتی ہے کہ وہ اپنے ہم مرتبہ لوگوں کے ہمراہ یکساں خطوط پر کام کرنے سے گریز کرتے ہیں۔
برانڈ کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کرنے اور مقبول بنانے کے لئے تصور اور اقدار کی نئی توجیہات کا شکریہ ، کہ جس کے تحت براہ راست اسٹاف کی کارکردگی کو تقویت دینے کے لئے ایک باقاعدہ الگ پروگرام چلایا جاتا ہے ، جبکہ ایک نئے اور بیرونی برانڈ کے لئے (شناخت، نام، تشہیر) کا پروگرام ضروری ہوتا ہے ، جیسا کہ خدمات فراہم کرنے ادارے کی جانب سے نئی خدمات کی فراہمی کسٹمر سروس کے معیار کو مزید بلند کرتی ہے۔
لہذا معلوم ہوا کہ اکثر کامیاب اداروں کے پیچھے ان کی معاشرتی اور ثقافتی اقدار کا بہت بڑا عمل دخل ہوتا ہے آپ جتنا زیادہ صارف کے انداز میں اس سے گفتگو کریں گے ، جتنا زیادہ اسکی ثقافت اسکے اورھنے پہنیے کے انداز اسکے رہن سہن کے ماحول اسکی زبان کو اپنائیں گے صارف اتنی ہی برق رفتاری سے آپکو اپنا جان کر آپکی جانب کھنچا چلا آئے گا مثلاً ایک یونی فارم والے شخص کی نسبت کوئی شخص ایک عام آدمی سے کسی مسئلہ پر گفتگو یا معلومات لینا زیادہ پسند کریگا جو کہ اسکے ہی لب لہجے و لباس مین ہوگا۔ ثابت ہوا کہ اداروں کی کامیابی کے راز میں جہاں دیگر عوامل شامل ہیں وہاں معاشرتی ثقافت بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔

Wednesday 21 December 2011

دھوپ سے چکن پاکس میں کمی

ایک نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ لاکڑا کاکڑا یا چکن پاکس کا پھیلاؤ دھوپ لگنے سے کم ہوجاتا ہے۔
جرنل ورولوجی میں شائع ہونے والی ایک تحقیقی رپورٹ میں لندن یونیورسٹی کے تحقیق کاروں نے کا کہنا ہے کہ چکن پاکس ان خطوں میں اتنا عام نہیں ہے جہاں سورج کی شعاعیں زیادہ ہوتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ سورج کی روشنی جلد پر چکن پاکس کے وائرس کو غیرمتحرک کردیتی ہے جس کے بعد وائرس کے لیے دوسروں 
تک منتقل ہونا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔
لیکن دوسرے طبی ماہرین کہتے ہیں کہ چکن پاکس کے پھیلاؤ کی 
روک تھام میں صرف سورج کی روشنی ہی نہیں بلکہ دوسرے عوامل بھی اہم کردار ادا کرتے ہے مثلاً درجہ حرارت، ہوا میں نمی کی شرح اور رہائش کی جگہ اور ماحول وغیرہ۔
چکن پاکس کا سبب بننے والا وائرس ’ویریسیلا زوسٹر‘ بہت تیزی سے پھیلتا ہے۔ یہ وائرس مریض کے کھانسنے اور چھینکوں سے دوسروں کو لگ سکتا ہے لیکن اس کے پھیلنے کا اصل سبب چکن پاکس کے دانے ہوتے ہیں جن کا لمس دوسروں کو بھی متاثر کرسکتا ہے۔
یہ پہلے سے معلوم ہے کہ دھوپ میں الٹرا وئلٹ شعاعیں وائرس کو غیر متحرک کردیتی ہیں۔ تحقیق کے سربراہ اور سینٹ جارج میں لندن یونیورسٹی کے ڈاکٹر فِل رائس کو یقین ہے کہ اصل وجہ یہ ہی ہے کہ ایسے خطوں میں جہاں دھوپ کم ہوتی ہے چکن پاکس کے وائرس تیزی سے پھیلتے ہیں۔
ان کے بقول برطانیہ جیسے ممالک جہاں سردیوں میں سورج کی شعاعیں انتہائی کم ہوتی ہیں چکن پاکس کے پھیلنے کے خدشات بھی بڑھ جاتے ہیں۔
یونیورسٹی کالج لندن کی پروفیسر جُوڈی بریور کا کہنا ہے کہ یہ حقیقت ہے کہ سورج کی شعاعیں وائرس کو محدود رکھنے میں کردار ادا کرتی ہیں لیکن ان وائرس کے پھیلاؤ میں دیگر عوامل کو بھی مدنظر رکھا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا ’الٹرا وائلٹ کے علاوہ بھی کئی چیزیں ہیں جیسے حرارت، نمی، معاشی عوامل اور لوگوں کا رش
ان کے بقول ’یہ بہت ممکن ہے کہ الٹرا وائلٹ کِرنوں کا بہت اثر ہوتا ہو لیکن ہمارے پاس ایسا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے جس سے ثابت ہو کہ اس کا کتنا اثر ہوتا ہے۔

Friday 16 December 2011

ہگس بوسون کو کائنات کا بنیادی تخلیقی جزو سمجھا جاتا ہے


سوئٹزرلینڈ کے شہر جینیوا میں ’لارج ہیڈرون کولائیڈر‘ منصوبے سے وابستہ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے ممکنہ طور پر تجربات کے دوران ہگس بوسون یا ’گاڈ پارٹیكل‘ کا مشاہدہ کیا ہے۔
ہگس بوسون وہ تخیلاتی لطیف عنصر یا ’سب اٹامک‘ ذرہ ہے جسے اس کائنات کی تخلیق کی وجہ قرار دیا جاتا ہے۔
تاہم سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ کسی فیصلہ کن ثبوت اور اسے ایک ’دریافت‘ قرار دینے کے لیے انہیں ابھی مزید تجربات کرنا ہوں گے۔گزشتہ دو برس سے سوئٹزرلینڈ اور فرانس کی سرحد پر بنائی گئی ایک ستائیس کلومیٹر طویل سرنگ میں سائنسدان انتہائی باریک ذرات کو آپس میں ٹکرا کر اس لطیف عنصر کی تلاش کر رہے ہیں جسے ہگس بوسون یا خدائی عنصر کہا جاتا ہے۔
اگر سائنسدان اس عنصر کو ڈھونڈنے میں کامیاب رہتے ہیں تو کائنات کی تخلیق سے متعلق کئی رازوں سے پردہ اٹھانا ممکن ہو سکے گا۔ اس تحقیق پر اب تک اربوں ڈالر خرچ کیے جا چکے ہیں اور اس پر تقریبا آٹھ ہزار سائنسدان گزشتہ دو برس سے مسلسل کام کر رہے ہیں۔
ہگس بوسون کو کائنات کا بنیادی تخلیقی جزو سمجھا جاتا ہے اور یہ پارٹیکل فزکس کے اس سٹینڈرڈ ماڈل یا ہدایتی کتابچے کا لاپتہ حصہ ہے۔ یہ سٹینڈرڈ ماڈل کائنات میں عناصر اور قوت کے باہمی رابطے کو بیان کرتا ہے۔
اس تحقیق میں شروعات سے ہی شامل رہنے والی بھارتی سائنسدان ڈاکٹر ارچنا شرما نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ’یہ بھوسے سے بھرے کھلیان میں سوئی تلاش کرنے جیسا کام ہے۔ ہم سوئی کو تلاش کرنے کے راستے پر ہیں لیکن ابھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ سوئی ہمیں مل گئی ہے‘۔
ان تجربات کے دوران ’لارج ہیڈرون کولائیڈر‘ میں پروٹونز کو روشنی کی رفتار سے ٹکرایا گیا جس سے ویسی ہی حالت پیدا ہوئی جیسی کائنات کی تخلیق سے ٹھیک پہلے بگ بینگ کے واقعہ کے وقت تھی۔ تجربے کے دوران پروٹونز نے ایک سیکنڈ میں 27 کلومیٹر لمبی سرنگ کے گیارہ ہزار سے بھی زیادہ چکر كاٹے، اسی عمل کے دوران پروٹون مخصوص جگہوں پر آپس میں ٹكرائے جس سے توانائی پیدا ہوئی۔
سائنسدان دیکھنا چاہتے ہیں کہ جب پروٹون آپس میں ٹكرائے تو کیا کوئی تیسرا عنصر موجود تھا جس سے پروٹون اور نيوٹرن آپس میں جڑ جاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ’ماس‘ یا کمیت کی تخلیق ہوتی ہے۔
ڈاکٹر ارچنا کا کہنا ہے کہ ’فطرت ، قدرت اور سائنس کے بارے میں ہماری آج تک کی جو سمجھ ہے اس کے تمام پہلوؤں کی سائنسی تصدیق ہو چکی ہے ، ہم سمجھتے ہیں کہ کائنات کی تعمیر کس طرح ہوئی ، اس میں ایک ہی کڑی ادھوری ہے ، جسے ہم اصول کے طور پر جانتے ہیں لیکن اس کے وجود کی تصدیق باقی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’وہی ادھوری کڑی ہگس بوسون ہے ، ہم اسے پکڑنے کی کگر پر پہنچ چکے ہیں ، ہم اسے ڈھونڈ رہے ہیں ، اس میں وقت لگ سکتا ہے ، ہمارے سامنے ایک دھندلی تصویر ہے جسے ہم توجہ سے پڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں‘۔
یہ اس وقت دنیا کا سب سے بڑا سائنسی تجربہ ہے ، ڈاکٹر ارچنا کہتی ہیں، ’اگر ہمیں گاڈ پارٹیكل مل گیا تو ثابت ہو جائے گا کہ فزکس سائنس صحیح سمت میں کام کر رہی ہے ، اس کے برعکس اگر یہ ثابت ہوا کہ ایسی کوئی چیز نہیں ہے تو کافی کچھ نئے سرے سے شروع کرنا ہوگا اور سائنس کے بارے میں ہماری سمجھ کو بدلنا ہوگا‘۔
گاڈ پارٹیكل ہے کیا؟
ڈاکٹر ارچنا بتاتی ہیں، ’جب ہماری کائنات وجود میں آئی اس سے پہلے سب کچھ ہوا میں تیر رہا تھا، کسی چیز کا وزن نہیں تھا۔ جب ہگس بوسون بھاری توانائی لے کر آیا تو تمام عناصر اس کی وجہ سے آپس میں جڑنے لگے اور ان میں ماس یا کمیت پیدا ہوگئی‘۔

پارٹیكل یا انتہائی لطیف عناصر کو سائنسدان دو زمروں میں باٹتے ہیں، مستحکم اور غیر مستحکم۔ مستحکم عناصر کی بہت لمبی عمر ہوتی ہے جیسے پروٹون اربوں كھربوں سال تک رہتے ہیں جب کہ کئی غیر مسحتکم عناصر زیادہ دیر تک ٹھہر نہیں پاتے اور ان کا رویہ بدل جاتا ہے۔
ڈاکٹر ارچنا کہتی ہیں، ’ہگس بوسون بہت ہی غیر مستحکم عنصر ہے، وہ بگ بینگ کے وقت ایک پل کے لیے آیا اور ساری چیزوں کو کمیت دے کر چلا گیا۔ ہم کنٹرولڈ طریقے سے، بہت چھوٹے پیمانے پر ویسے ہی حالات پیدا کر رہے ہیں جن میں ہگس بوسون آیا تھا‘۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ جس طرح ہگس بوسون کا خاتمہ ہونے سے پہلے اس کی شکل بدلتی ہے اس طرح کے کچھ انتہائی لطیف ذرہ دیکھے گئے ہیں اس لیے امید پیدا ہو گئی ہے کہ یہ تجربہ کامیاب ہوگا۔
ان تجربات کے نتائج نے طبیعات کے ماہرین کو چونکا دیا ہے کیونکہ یہ طبیعات کے ایک بنیادی اصول سے متصادم ہیں۔
اس تجربے کے دوران روشنی کی رفتار کے ساتھ سفر کرنے والے نیوٹرینوز کو سرن لیبیاٹری سے اٹلی میں سات سو کلو میٹر کے فاصلے پر واقع گران ساسو لیبیاٹری بھیجا گیا۔ تاہم نیوٹرینو کی واپسی روشنی کی رفتار سے ایک سیکنڈ قبل ہوئی۔
اگر ان نتائج کی تصدیق ہو جاتی ہے تو اس سے مشہور ماہرِ طبیعات آئن سٹائن کے نظریۂ اضافت کے ایک بڑے حصے کی تردید ہو جائے گی جس کے تحت روشنی کی رفتار سے کوئی چیز آگے نہیں بڑھ سکتی۔
جمعہ کو سائسندان سرن میں ایک کانفرنس کے دوران ان نتائج پر بحث و تمحیص کریں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ہم نے ہر ممکنہ توجیہ تلاش کرنے کی کوشش کی۔
سرن‘ کے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ وہ ان نتائج پر یقین کرنے کے معاملے میں مخمصے میں ہیں اور انہوں نے دیگر سائنسدانوں سے کہا ہے کہ وہ ان نتائج کی آزادانہ طور پر تصدیق کریں۔
اس پیشکش کے بعد امریکی ریاست الینوائے میں سائنسدانوں نے کہا ہے کہ انہوں نے چند برس قبل ایسا تجربہ کیا تھا اور وہ اب دوبارہ اسے مزید احتیاط اور درستگی کے ساتھ کریں گے تاکہ ’سرن‘ کے دعوے کی تصدیق یا تردید ہو سکے۔
دریں اثناء سائنسدانوں کے ایک دوسرے گروپ کا کہنا ہے کہ وہ اس دعوے پر تبصرہ کرنے پر احتیاط برت رہے ہیں۔ اوپیرا کولیبریشن کے اینتونیو ایرادیتو کا کہنا ہے ’ہم نے ان نتائج سے حاصل ہونے والی معلومات کی پوری چھان بین کرنے کی کوشش کی ہے‘۔
اینتونیو نے بتایا کہ ہم غلطی تلاش کرنا چاہتے تھے جس میں معمولی غلطی، زیادہ الجھی ہوئی غلطی یا کوئی ایسی غلطی شامل ہو جس کے اثرات ہوں مگر ہم کوئی غلطی تلاش نہیں کر سکے۔
جب آپ کوئی غلطی تلاش نہیں کر سکتے تو آپ کہتے ہیں کہ اب میں مجبور ہوں کہ باہر جا کر کمیونٹی سے کہیں کہ وہ اس کی مزید جانچ کرے‘۔
.ڈاکٹر ایرادیتو کا کہنا ہے کہ میری خواہش ہے کہ ان تجربات کے نتائج کو جانچنے کے لیے کسی اور سے بھی تجربہ کرایا جائے اور جب وہ تجربہ وہی نتائج دے گا جو میں نے بتایا ہے تو پھر میں مطمئن ہو جاؤں گا۔
آئن سٹائن کے نظریے پر اب تک ہزاروں تجربات کیے گئے اور ان میں کوئی بھی ذرہ روشنی کی رفتار سے آگے نہیں جا سکا۔ لیکن ڈاکٹر ایرادیتو اور ان کے ساتھیوں نے گزشتہ تین سالوں کے دوران اپنے تجربات جاری رکھے جس کے بعد یہ معلوم ہوا کہ سب اٹامک ذرات کی رفتار روشنی کی رفتار سے زیادہ ہے۔

Wednesday 14 December 2011

URDU: دورِ دروغ

URDU: دورِ دروغ: تحریر:۔ مسعود نبی خان 14-12-2011 ہم جس دورمیں رہتے ہیں اسے سائنس اور ٹیکنالوجی میں بے پایاں ترقی کی بناء پر انفارمیشن یعنی اطلاعات...

دورِ دروغ

تحریر:۔   مسعود نبی خان 14-12-2011
ہم جس دورمیں رہتے ہیں اسے سائنس اور ٹیکنالوجی میں بے پایاں ترقی کی بناء پر انفارمیشن یعنی اطلاعات کا دور کہا جاتا ہے ۔ مواصلات کے میدان میں تو ترقی انتہائی حدود کو پہنچ چکی ہے اور سائنس نے اسے حتمی طور پرایسی بلندیوںپر پہنچا دیا ہے کہ تقریباً پوری دنیاکے لوگ باہمی رابطے کی وجہ سے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں ۔ میڈیا اتناطاقتورہے کہ اب کسی شخص کو یہ جاننے کے لئے کہ اطراف عالم میں کیا ہورہا ہے اور قومی و بین الاقوامی تازہ ترین خبروںکے لئے  صبح کے اخبار کا انتظار نہیں ہوتا، بس ایک ’’کلک‘‘ کی دیر ہوتی ہے اور اسے تمام معلومات انتہائی تازہ ترین اور بالکل صحیح وقت اور موقعے کی دستیاب ہوتی ہیں، اب تویہ عالم ہے کہ اگر کوئی شخص امریکہ نہیں گیا تو اسے کم و بیش اتنی ہی معلومات ہونگی جتنی کہ اپنے علاقے، تہوار، سڑکوں کے نام، فون کوڈز، شہریوںکے ریکارڈ، آبادی ، موسم اور دیگر جغرافیائی حالات کے متعلق کسی امریکن کو ہونگی۔
اب اسے ہماری بدقسمتی پر ہی محمول کیا جائے گا کہ خوش قسمتی سے ہم سائنس اور ٹیکنالوجی میں اس قدر ترقی تو کر چکے ہیں کہ عہد حاضر کو اطلاعات و معلومات یعنی انفارمیشن کا زمانہ کہا جاتا ہے، مگر میں اس دور اطلاعات کو ’’دورِ دروغ‘‘ کہوں گا یعنی جھوٹ پر مبنی اطلاعات کی وجہ سے بجائے ـ"information age" کہنے کے اسے  "misinformation age" کہنا زیادہ مناسب ہوگاا ، اس سلسلے سے سب سے بڑا ہاتھ تو میڈیا کا ہے جوخصوصاً پاکستان میں محض اپنے مالی فائدے کے لئے ملک و قوم کی قیمت پرآزادی کا انتہائی ناجائز فائدہ اٹھا رہا ہے اور غلط یا ابہام پیدا کرنے والی نہ صرف خبریںبلکہ ایسے مذاکراتی پروگرام و مباحثوںکے علاوہ ایسے شخصی پروگرام نشر کرتا ہے جس سے عوامی آراء کو مخصوص پروپیگنڈے کے تحت اپنے راشی فنانسروں کے من پسند زاویئے پر موڑا جاسکے ، اس کے علاوہ ای۔میلز، ٹیکسٹ میسیجز، اور خود ہمارے سیل فون اس کا ذریعہ ہیں جس سے مبہم خبریں اور اطلاعات پہنچتی ہیں، ان میں بیشتر تو جھوٹ و افتراء پردازی پر مبنی ہوتی ہیں بقیہ میں دیگر مصالحہ اس قدر ابہام پیدا کردیتا ہے کہ اگر اصل خبر ہو بھی تو وہ چھپ جائے اور خبر دینے والے پہلے ذریعے کے من چاہے پروپیگنڈے کا اثر سب سے زیادہ نمایاں ہو ، ہم میں سے اکثر کو جب ایسی صورت حال سے واسطہ پڑتا ہے تو ہم ان غیر مصدقہ خبروںاورافواہو ں کا حصہ بن جاتے ہیں اور اسطرح شہر یا ملک کی آبادی کی ایک بڑی تعداد اس جھوٹ کے زبان زد عام ہونے کی بناء پر اس کی اصل حقیقت جانے بغیر اس پر یقین کرنے لگتی ہے ۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ خصوصاً ہمارے ملک کی نیم اور نا خواندگی کی بناء پر اکثر افراد جہاں معلومات حالانکہ  صرف ایک کلک کی دوری پر ہوں وہاںپر بھی سنی سنائی باتوں تیزی سے یقین کرتے ہیں ۔     
ایسی باتوں کا اثر جہاں ہمارے ملک کی نیم خواندگی اور نا خواندگی کی وجہ سے خصوصاً دیرپا اور تا دیر رہتا ہے وہیں عمومی طور پر ایسا پوری دنیا میں بھی ہوتا ہے مگر اس کی شدت  اور پائیداری کم ہوتی ہے ، مثال کے طور پر امریکہ کے صدارتی امیدوار بارک اوبامہ کی بیوی سے منسوب  ایک بیان پر امریکہ کے ایک نیٹ بلاگ پر کافی لے دے ہوئی کیونکہ وہ مسلسل یہ کہہ رہے تھے کہ اوبامہ کی بیوی نے ’’فوکس ٹی وی‘‘ پر یہ بیان دیا ہے مگر جلد ہی جب تحقیقات کی گئیں تو پتہ چلا کہ تمام معاملہ دروغ گوئی یعنی جھوٹ پر مبنی تھا اور اوبامہ کی بیوی نے ٹی وی پر ایسا کوئی بیان نہیں دیا تھا، اور تمام خبر اور بحث جھوٹ او رافتراء کا پلندہ تھی۔
ایسا ہی کچھ حال ہمارے ملک کاہے جس میں آپ کو لاتعداد ایسی مثالیں مل جائیں گی جس میں ملک و قوم کی قیمت پر ٹیکسٹ میسیجز سے لیکر نامور میڈیا تک جھوٹ کے پہاڑ کھڑے نظر آئیں گے مثلاً سابق صدر پرویز مشرف کو کبھی ترکی دوڑا دیا جاتا تھا ، تو کبھی انہیں ملک چھوڑ کر امریکہ بھگا دیا جاتاتھا، شیخ رشید کے بارے میں انتخابات سے قبل یہ افواہ گرم تھی کہ انہوں نے دبئی فرار ہوکر وہاں سکونت اختیار کرلی ہے اور وہیں کاروبار کرہے ہیں، اور پھر کتنے دکھ اور افسوس کے ساتھ میں یہ لائنیں لکھ رہا ہوں کہ فاروق ستار کے جھوٹے بہیمانہ قتل کی افواہ نے تو کورنگی کے علاقے میں دو گروہوں کے درمیان تصادم کی وجہ بن کر کتنے ہی لوگوں کو موت کی بھینٹ چڑھا دیا۔ اس کے علاوہ موجودہ صدر آصف علی زرداری کے حوالے سے یہ بات پھیلائی جارہی ہے کہ وہ دبئی میں انتقال کرگئے ہیں۔
دراصل مختلف سیاسی اور مذہبی رنگ لئے ہوئے دولت و اقتدار کی ہوس میں ڈوبے ان جھوٹے پروپیگنڈوں  کے لئے جدید ترین ٹیکنالوجی استعمال کی جاتی ہے اور عوامی آراء پر اثر انداز ہوکر اپنے مذموم اہداف کی تکمیل کی جاتی ہے ، اور اس کا سب سے آسان ذریعہ ای۔میلز اور ٹیکسٹ میسیجز ہیں جو زندگی کے مختلف طبقوں میں صرف ایک دفعہ بھیجے جاتے ہیں باقی عوام الناس کے یہ طبقے خود ہی ان کے چکروں میں آکر ان افواہوں کو مزید پھیلانے کا باعث بنتے ہیں اور انہیں ابتدا میں بھیجنے والوں کے عزائم کی تکمیل کرتے ہیں۔ ڈنمارک کے ایک کارٹونسٹ کی جانب سے توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کے ایک طویل عرصے بعد پاکستان میں کام کرنے والی ایک غیر ملکی کمپنی پر عتاب ڈھانے کے لئے اس واقعے کو ہتیار بنایا گیا ،خودمجھے ایک ای میل موصول ہوئی کہ میں مذکورہ کمپنی کی SIMاپنے فون سے نکال کر پھینک دوں اب دینی حمیت کا تقاضا تو یہی تھا کہ میں ایسا کرتا مگر مجھے معلوم تھا کہ مذکورہ کمپنی ڈنمارک کی نہیں ناروے کی ہے اور پھر یہ کہ خاکوں کی اشاعت سے اس کا دور دورتک کوئی واسطہ نہیں ہے مگر میرے ملک کے بھولے عوام کی اکثریت نے اس پر یقین کیا اور حقیقیت حال جاننے کی کوشش نہیں کی کہ آیا یہ کمپنی واقعی ڈنمارک کی ہے بھی یا نہیں ، ایسا ہی حال ہمارے میڈیا کے  بدنام زمانہ نام نہادنامور چینل کا ہے جو ایسی خبروں پر پھرتی دکھاتے ہوئے فوراً سے پیشتر متعلقہ اداروں،تنظیموں، اشخاص اور ملکوں سے مالی فائدہ حاصل کرکے ایسی جھوٹی خبریں اتنے ابہام میں پیش کرتا ہے کہ بھولے عوام پروپیگنڈے کا شکار ہوجاتے ہیں اور دیگر چینل اس چینل کی نشریات کو بنیاد بنا کر بغیر کسی وجہ کے ہی اس بات کی تحقیق کئے بغیر اس پروپیگنڈے کا حصہ بن جاتے ہیں۔  

میرے خیال میں میڈیا کا یہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ، غیر سنجیدہ اور غیر متوازن روّیہ اور عام آدمی کا سادہ لوحی پر مبنی طرز عمل صرف اس لئے ہے کہ ہمارے ہاں اس سلسلے سے کوئی چیک اینڈ بیلنس کا نظام موجود نہیں ہے، حالانکہ ہم کو اس کی شدید ضرورت ہے ۔جھوٹی اور افتراء پردازی پر مشتمل خبریں نشر کرنے والے ایسے ٹی وی چینلز کے اجازت نامے منسوخ کردینے چاہیئں،اور اس بات کا دھیان رکھا جائے کہ کسی اور ذریعے سے ایسے عناصر دوبارہاس فیلڈ میں داخل ہی نہ ہوسکیں، انٹر نیٹ سروس مہیا کرنے والے اداروں کو چاہیئے کہ وہ ایسے عناصر پر نظر رکھیںجو اس کے غلط استعمال کی وجہ بنتے ہیں اور مجاز حکام کو باقاعدہ رپورٹ کرکے ایسے عناصر کی بیخ کنی کے لئے انہیں جرمانہ و سزائیں دلوائیں۔اور پھر سب سے بڑھ کر ہم لوگ خود بطور سامع ایسی غیر مصدقہ خبریں سن کر بجائے اس کے کہ اسے سوچے سمجھے بغیر مزید آگے بڑہائیں  اسے وہیں اگر دبادیں تو من حیث القوم ہم بہت ساری بلا وجہ کی ذہنی مشکلات اور آفات ناگہانی میں مبتلا ہونے کے خدشات سے بچ جائیں گے۔   

URDU: مینڈک زلزلے سے پیشگی آگاہ ہوجاتے ہیں

URDU: مینڈک زلزلے سے پیشگی آگاہ ہوجاتے ہیں: قدرتی آفات میں عموماً سب سے مہلک زلزلے ثابت ہوتے ہیں کیونکہ ابھی تک کوئی ایسا نظام وضع نہیں کیا جاسکا جو اس ناگہانی خطرے کی پیشگی اطلاع...

URDU: پيراسٹامول کي زيادہ مقدار جگر کے ليے نقصان دہ ہے

URDU: پيراسٹامول کي زيادہ مقدار جگر کے ليے نقصان دہ ہے: مسعود نبی خان دسمبر 13 ، 2011 پيراسٹامول درد اور بخار ميں عام استعمال ہوتي ہے۔ پاکستان ميں يہ دوا شير مارکہ گولي کے نام سے ب...

URDU: توانائی کے شعبے کے لئے حکومتی پالیسی

URDU: توانائی کے شعبے کے لئے حکومتی پالیسی: مسعود نبی خان 14-12-2011 آج کل اخبارات کی شہ سرخیوں میں بجلی کی کم پیداوار کی بازگشت سے بھی آگے پاکستان کو درپیش اہم مسئلہ یہا...

توانائی کے شعبے کے لئے حکومتی پالیسی


  
مسعود نبی خان 14-12-2011
آج کل اخبارات کی شہ سرخیوں میں بجلی کی کم پیداوار کی بازگشت سے بھی آگے پاکستان کو درپیش اہم مسئلہ یہاں توانائی کے شعبے میں ایک مؤثر اور واضح پالیسی کا فقدان ہے، جو تیل و گیس کی پیداور سے لیکر صارفین و صنعتوں کے استعمال اور معیشت کی ریڑھ کی ہڈی یعنی بجلی کی پیداوار تک کا مکمل احاطہ کرتی ہے۔ ہمیں صرف طلب اور رسد کے درمیان خلیج ہی کو نہیں پر کرنا ہے بلکہ ہمیں بجلی کی پیداوار ی لاگت کو بھی کم کرنا ہے تاکہ یہ ہماری اقتصادیات کے تناظر میں قابل استطاعت قیمتوں پر آجائے۔ مہنگی بجلی لوڈ شیڈنگ کو کم نہیں کرسکتی اور پھر یہ قابل قبول بھی نہیں ہے۔
بجلی کی پیداوار کے شعبے کا ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ یہاں طویل المدتی بنیادوں پر ایندھن کے ذرائع سے بجلی پیدا کی جاتی رہی ۔ جب کہ پاکستان روائتی طور پر پن بجلی پر انحصار کرتا ہے اور تھرمل بجلی کی پیداوار مقامی گیس کی پیداوارکے استعمال سے ہوتی ہے تاکہ بھاری مقدار میں بجلی پیدا کی جاسکے۔پچھلے پچیس برسوں میں بجلی کی پیداوار میں بھاری فرنیس آئل(HFO)     کے استعمال کے متعارف ہونے کے بعد درآمدی HFO  کے استعمال سے بجلی کی قیمتیں مزید بڑھ گئیں ۔ اس طرح بجلی کی مجموعی پیداواری قیمتوں اور کرنٹ اکائونٹ بیلنس پر بڑا منفی اثر پڑا۔ پاکستان میں 1980  ء  اور 1990 ء  کے عشروں میں بجلی کی کمی کا ایک فوری رد عمل یہ ہوا کہ  HFO  سے پیدا شدہ بجلی پر انحصار بڑھ گیا، جس کا اثر یہ ہوا کہ بجلی کی پیداوار کے نجی شعبے میں 3,500  میگا واٹ بجلی اس تیل سے پیدا کی جانے لگی ، اس عرصے میں پن بجلی کی پیداوار کو بڑھانے کے لئے اس پر کوئی ترقیاتی کام نہیں ہوا، صرف اتنا ہوا کہ گیس سے پیدا کی جانے والی بجلی کا ایک پلانٹ نصب کیا گیا ۔جب مقامی طور پر پیدا کی جانے والی گیس کی امدادی قیمتوں میں بین الاقوامی طور پر دستیاب گیس کی قیمتوں کے تناظر میں کمی کی گئی تب بھی پاور سیکٹر کو اس کی ضروریات کے مطابق گیس کی فراہمی عمل میں نہ آسکی۔ حکومت پاکستان کی موجودہ پالیسی گھریلو صارفین اور کھاد کی پیداوار کے شعبے کو ترجیحی بنیادوں پر گیس فراہم کرتا ہے، ان دونوں شعبوں کے لئے گیس کی قیمتیں انتہائی نچلی سطح پر رکھی گئی ہیں۔ اس پالیسی میں تبدیلی کی ضرورت ہے اور بجلی کی پیداوار کے شعبے کو ترجیحی بنیادوں پر گیس کی فراہمی ہونی چاہئے کیونکہ ان تمام شعبہ جات میں استعمال برابر ہے لہذا گیس سے پیدا کی گئی بجلی کی پیداوار کو بھی بڑھانا چاہئے۔ 100  تا 200   MMCFD گیس  بجلی کے شعبے کو مزید بڑھانے سے بجلی کی پیداوار میں 500  تا 1000  میگا واٹ اضافہ ہوسکتا ہے۔
اس کے علاوہ مقامی گیس سے پیدا کی گئی بجلی کی لاگت تیل سے پیدا شدہ بجلی کی لاگت سے تین گنا کم ہوتی ہے ۔ اس کے علاوہ حکومت کو اپنی پالیسی کے تحت کوئلے سے پیدا ہونے والی بجلی کے اسٹیشنوں کے قیام کو بھی ترجیحات میں شامل کرنا چاہئے ، اور اس کے ساتھ ساتھ کوئلے کے مقامی ذخائر (تھر کول) پر بھی توجہ دینی چاہئے۔ جیسے ہی مقامی کوئلے کی پیداوار شروع ہو یہ اسٹیشن مقامی کوئلے سے کام کرنے لگیں، فی الحال درآمدی کوئلہ حرارت کی بنیاد پر مقامی گیس کی قیمتوں سے بھی سستا پڑتا ہے۔ طویل المدتی بنیاد پر مقامی کوئلہ ہی ملک کی بھاری ضروریات کو پورا کرسکتا ہے ۔ متوازی طور پر جیسے جیسے بجلی کی طلب میںاضافہ ہوگا پن بجلی کی پیداوار میںاضافے کی بھی کوششیں کرنی ہوں گی۔اس ضمن میں ہمیں کئی بڑے ڈیموں کی ضرورت ہے جن کا منصوبہ پہلے ہی بنایا جاچکا ہے، اس کے ساتھ ساتھ کئی چھوٹے اور مائیکرو پراجیکٹ بھی شروع کرنے ہوں گے۔بڑے اور میگا ڈیموں کی ضرورت صرف بجلی کی پیداوار کے لئے نہیں ہوگی بلکہ مستقبل میں پانی کی شدید ممکنہ کمی پر قابو پانے کے لئے بھی ہمیں ان کی ضرورت ہے۔اس کے علاوہ بجلی کی پیداوار کے لئے نئے متبادل ذرائع یعنی ہوا سے بجلی کی پیداوار کی بھی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی، حالانکہ یہ ہماری بجلی کی بنیادی طلب کو پورا نہیں کرسکتے مگر ہمیں ان ہی میں سے اپنی مختصر، وسطی اور طویل المدتی ترجیحات کو چننا ہوگا۔ ایک اندازے کے مطابق یہ ذرائع 10  برسوں میں 5%   بجلی کی طلب کو پورا کرسکیں گے۔
بجلی کی چوری ایک شدید مسئلہ ہے ، اور لوڈ شیڈنگ سیمت بجلی کی اونچی قیمتوں کی ایک بڑی وجہ ہے۔ اس ضمن میں سخت اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ بجلی چوری کی حوصلہ شکنی ہو، مثال کے طور پر اس سلسلے میں قوانین میں ترمیم اور ان کا سختی سے نفاذ اس برائی کو روک سکتا ہے۔
اس کے علاوہ حکومت کو چاہئے کہ وہ بجلی کی مد میں دی جانے والی سبسڈی پر نظر ثانی کرے، اور گھریلو صارفین، صنعتی صارفین اور تجارتی صارفین کو دی جانے والی سبسڈی ہم آہنگ کرے ، اور اس سبسڈی والی بجلی کی مقدار کا تعین انتہائی ضروری کی سطح تک لے آئے۔ استعمال پر قیمتوں میں کمی بیشی کی بھی دوبارہ تعین کی ضرورت ہے۔ بجلی پر دی جانے والی سبسڈی کی موجودہ حالت انتہائی غیر مستحکم ہے جس کو بتدریج کم کرتے ہوئے ۔
بجلی کے پیداواری شعبے پر دوسرے شعبوں سے واجب الوصول رقوم مسلسل بڑھتی جارہی ہیں، جو درحقیقت پوری معیشت کے لئے ایک بڑا خطرہ ہے۔ اس مسئلے کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ بجلی کی مختلف پیداواری اور تقسیم کار کمپنیوں کے لئے یہ نا ممکن ہوگیا ہے کہ حکومتی اداروں اور شعبوں کی جانب سے عدم ادائیگیوں کے باوجود صرف صارفین سے وصول شدہ رقوم سے اپنی پیداواری صلاحیت کو برقرار رکھیں ۔ اس کا ایک تعلق سبسڈی کے مسئلے سے بھی ہے کہ تقسیم کار کمپنیاں حکومت پاکستان کے اداروں کو فراہم کی جانے بجلی کی سبسڈی شدہ قیمتوں پر بھروسہ کرتی ہیںکہ وہ ان کی آمدنی کا ایک یقینی حصہ ہوگا، مگر ا س سے مسلسل مالیاتی مسئلہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومتی اداروں اور نقصان میں جانے والے اداروں کی جانب سے ایک تو عدم ادائیگی دوسرے ان اداروں کی بجلی نہیں کاٹی جاسکتی اور انہیں فراہمی بھی جاری رکھنا لازمی ہوتی ہے کہ اس سے عام لوگ متاثر ہوتے ہیں۔ اس طرح ان اداروں پر بجلی کی مد میں واجب الادا رقوم کی مالیت کئی ارب ڈالر سے متجاوز ہوجاتی ہے، جس کے اثرات تیل کے فراہم کنندگان، گیس کے فراہمی کے اداروں اور آئل ریفائنریز کی ادائیگیوں پر پڑتے ہیں۔ حکومت پاکستان نے واپڈا اور پیپکو جیسے اداروں کی واجب الادا رقوم کے لئے بینک فنانسنگ کا طریقہ متعارف کروایا مگر اس طرح تو مسئلہ صرف ایک بار حل کیا جاسکتا ہے ۔ اس مسئلے سے بچنے کے لئے حکومت پاکستان کو چاہئے کہ وہ صوبائی اور ریجنل حکومتوں کے وفاق سے فنڈز کی منتقلی کے وقت ہی ان ادائیگیوں کو منہا کرلے ، اس طرح ٹیرف بھی بجلی کی اصل لاگت پر آجائے گا۔
قصہ مختصر یہ کہ توانائی کے شعبے کے لئے ایک جامع و مؤثر پالیسی کی ضرورت ہے ، جس میں گیس کی فراہمی میں بجلی کی پیداوار کو ترجیح دی گئی ہو۔ مجموعی طور پر طویل المدتی اقدامات کی ضرورت ہے ، جن میں پاور جنریشن پلان، کوئلے ،گیس اور پانی سے پیدا کی جانے والی بجلی کو ترجیحات میں شامل کرنا ہوگا۔ بجلی کی سبسڈی امیر کبیر صارفین کے لئے ختم کرنا ہوگی اور صارفین کو بجلی کی اصل لاگت سے آگاہی دینی ہوگی۔اس کے ساتھ ساتھ بجلی کی چوری اور بجلی کی پیدوار کے شعبے میں نااہلی کو کم کرنا ہوگا۔ صرف ان ہی طریقوں سے بجلی کی قیمتیں عام عوام تک پہنچنے تک کم ہوسکیں گی اور اس ضرورت کے تمام مسائل پر قابو پایا جاسکے گا۔ 
         


































Tuesday 13 December 2011

پيراسٹامول کي زيادہ مقدار جگر کے ليے نقصان دہ ہے

 مسعود نبی خان    دسمبر  13 ،   2011

پيراسٹامول درد اور بخار ميں عام استعمال ہوتي ہے۔ پاکستان ميں يہ دوا شير مارکہ گولي کے نام سے بھي مشہور ہے۔ اس کے علاوہ اس کو پيناڈول بھي کہا جاتا ہے، جب کہ امريکہ ميں اس دوا کو اسيٹومينوفن کہا جاتا ہے اور يہ بازار ميں ٹائلے نول (Tylenol)کے نام سے دستياب ہے۔ 



ايک امريکي خاتون مارگيليٹ نے آدھے سر کے درد کے علاج کے ليے ٹائلے نول کي گولياں کھائيں. وہ کہتي ہيں کہ ميں نے کبھي مقررہ مقدار سے زيادہ دوا نہيں لي ليکن انہيں فوري طورپراپنے جگرکو ٹرانسپلانٹ کرانا پڑا۔ 
مارگيلٹ ريٹنر کا کہنا ہے کہ وہ کبھي يہ سوچ بھي نہيں سکتي تھيں کہ ايک ايسي دوا جس سے ان کے سرکا درد اور جسم کے دوسرے درد دور ہوجاتے تھے، انہيں اس حد تک بيمار کردے گي۔
ڈاکٹر رابرٹ براؤن کہتے ہيں کہ عام لوگ يہ دوا اس ليے پسند کرتے ہيں کيونکہ يہ درد دور کرنے والي دوسري دواؤں کے مقابلے ميں بہت مؤثر ہے، يہ معدے پر کوئي اثر نہيں ڈالتي اور عمومي طورپر اس کے زيادہ مضر اثرات بھي نہيں ہوتے۔
پيراسٹامول کي صحيح خوراک کيا ہے؟
ماہرين کا کہنا ہے کہ اس دوا کا زيادہ مقدار ميں استعمال جگر کو شديد نقصان پہنچا سکتا ہے اور اس سےموت بھي واقع ہوسکتي ہے.دوا کے پيکٹ پر يہ ہدايت لکھي ہوتي ہے کہ مريض 500 ملي گرام کي گولي ہر چار سے چھ گھنٹے کے بعد لے سکتا ہے۔ 
ماہرين کے ايک پينل کا کہنا ہے يہ مقدار بہت زيادہ ہے اور امريکي ادارے ايف ڈي اے کے عہدے داروں کو اس دوا کے ايک ڈاکٹري نسخے کي زيادہ سے زيادہ حد ايک ہزار گرام مقرر کرني چاہيئے۔ پينل ميں شامل ايک ماہر ڈاکٹر نيل فيربر کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر نسخے کے بغير کھلے عام ملنے والي دوا کي مقدار 650 ملي گرام سے زيادہ نہيں ہوني چاہيئے اور ايک مريض کو دن بھر ميں اس کي چارہزار ملي گرام سے زيادہ مقدار استعمال نہيں کرني چاہيئے۔
وہ کہتے ہيں کہ ہم ايسے افراد کي زندگياں بچانے کي کوشش کررہے ہيں جو غير شعوری طورپريہ دوا زيادہ مقدار ميں استعمال کرتے ہيں۔
تاہم اس سلسلے ميں ايک اور مسئلہ بھي ہے۔ ڈاکٹری نسخے کے بغير فروخت ہونے والي دوسوسے زيادہ دواؤں ميں پيراسٹامول شامل ہوتي ہے جن ميں نيند لانے اور نزلے اور فلو کے علاج کے ليے استعمال ہونے والي دوائيں بھي شامل ہيں۔ ڈاکٹر سينڈرا ويڈر کہتي ہيں کہ خواتين کو دوا کي شيشي کے ليبل پر درج ہدايات پڑھني چاہيں اور يہ يقيني بنانا چاہيئے کہ آيا يہ دوا ڈاکٹر کي نگراني ميں استعمال کرني ہے يا يہ نسخے کے بغير فروخت ہونے والي دوا ہے۔ اور اس کے اجزا کيا ہيں اور کتني مقدار ميں ہيں۔
ممکن ہے کہ آئندہ چند مہينوں ميں ادويات کے کنٹرول سے متعلق ادارہ پيراسٹامول کے بارے ميں کوئي فيصلہ کرے۔ پينل کے ايک رکن کا کہنا ہے کہ امريکي جس کثرت سے اس دوا کا استعمال کرتے ہيں، انہيں حيرت ہے کہ ابھي تک اپنے جگر کو پہنچنے والے نقصان سے بچے ہوئے ہيں۔

مینڈک زلزلے سے پیشگی آگاہ ہوجاتے ہیں

قدرتی آفات میں عموماً سب سے مہلک زلزلے ثابت ہوتے ہیں کیونکہ ابھی تک کوئی ایسا نظام وضع نہیں کیا جاسکا جو اس ناگہانی خطرے کی پیشگی اطلاع دے سکے۔ لیکن اب سائنس دانوں کو معلوم ہوا ہے کہ مینڈک کا حسیاتی نظام اسے زلزے کی آمد سے تین روز پہلے خبردار کردیتاہے۔نئی تحقیق سے مستقبل قریب میں زلزلے کی پیش گوئی کا امکان پیدا ہوگیا ہے۔
یعنی گلدار مینڈک       leopard Frog

ممکن ہے کہ آپ کے لیے یہ خبر دلچسپی کا باعث ہوکہ مینڈکوں کو کئی گھنٹے اور بسااوقات دو تین روز پہلے ہی پتا چل جاتا ہے کہ زلزلہ آنے والا ہے اور وہ اپنے بچاؤ کے لیے محفوظ مقامات کی طرف بھاگنا شروع کردیتے ہیں۔

قدرت نے کئی جانوروں اور پرندوں کو ناگہانی خطرات سے پیشگی خبردار کرنے کی صلاحیت عطا کی ہے۔ مثلاً بارش سے قبل کئی پرندے محفوظ مقامات کی طرف اڑنے لگتے ہیں۔ آندھی سے کافی دیر پہلے جھینگروں کی آوازیں بند ہوجاتی ہیں، خطرے کی بوسونگھ کر گھوڑے اچانک مخصوص انداز میں ہنہنانے لگتے ہیں، اسی طرح جنگل کے جانور خطرے کو قبل از وقت بھانپ کر جان بچانے کے لیے بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔

لیکن اپریل2009ء میں اٹلی کے علاقےلاکویلا میں تقریباً چھ درجے شدت کے زلزلے سے پہلے کسی کو یہ علم نہیں تھا کہ مینڈکوں کو اس ناگہانی آفت کا تین روز پہلے ہی پتا چل گیا تھا۔

لاکویلا میں زلزلے سے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلی تھی اور بڑے زلزلے کے بعد ہفتوں تک چھوٹے زلزلوں کے ہزاروں جھٹکے محسوس کیے گئے تھے۔

زلزلے کو قدرتی آفات میں سب سے زیادہ خطرناک تصور کیاجاتا ہے کیونکہ زلزلہ کسی کو سنبھلنے، سوچنے سمجھنے اور جان بچانے کا موقع نہیں دیتا اور لمحوں میں ہنستی بستی آبادیاں ملبوں کا ڈھیر بن جاتی ہیں۔چند سال قبل پاکستان کے شمالی علاقے میں ایک تباہ کن زلزلے سے صرف چند منٹ میں درجنوں آبادیاں کھنڈر بن گئی تھیں اور 80 ہزار سے زیادہ افراد موت کے منہ میں چلے گئےتھے۔
ہماری زمین بڑی بڑی چٹانی پرتوں پر قائم ہے، جن کے کونے ایک دوسرے کے اوپر رکھے ہیں۔ زمین کے گہرائیوں میں درجہ حرارت کی تبدیلی ، اندورنی دباؤ اور بعض دوسرے عوامل کی وجہ سے یہ چٹانیں آہستہ آہستہ کھسکتی رہتی ہیں۔ جب ایک چٹان دوسری چٹان سے ہٹتی ہے تو زمین کی سطح پر کئی سو میل تک زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے جاتے ہیں۔ اور پھر بعد میں ہلکے جھٹکے (آفٹر شاکس )اس وقت تک آتے رہتے ہیں جب تک کھسکنے والی چٹان نئی جگہ پر مضبوطی سے جم نہیں جاتی۔

آج کے جدید سائنسی دور میں ماہرین یہ جانتے ہیں کہ دنیا کے کون کون سے شہر اور آبادیاں اس مقام پر واقع ہیں جہاں زمین کی تہہ میں چٹانیں ایک دوسرے سے ملتی ہیں اور ان کے کھسکنے کے امکانات موجود ہیں، لیکن ابھی تک ایسا کوئی نظام تیار نہیں کیا جاسکا جس سے پہ پتا چل سکے کہ چٹانوں کے کھسکنے کا عمل کب شروع ہوگا۔

لیکن دو سال پہلے اٹلی کے ایک تالاب سے زلزلہ آنے سے پہلےزیر تجربہ مینڈکوں کے اچانک فرار نے سائنس دانوں کو ایک نئی راہ دکھائی۔
ہوا یہ کہ ایک ماہر حیاتیات مس گرانٹ ، اٹلی کے شہر لاکویلا میں مینڈکوں پر تحقیق کررہی تھیں۔ تالاب میں 90 کے لگ بھگ مینڈک رکھے گئے تھے لیکن جب زلزلے سے تین روز پہلے 80 سے زیادہ مینڈک گھبراہٹ کے عالم میں تالاب چھوڑ کر بھاگ گئے تو انہوں نے ناسا کے ماہرین سے رابطہ کیا۔

سائنسی جریدے زولوجی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زلزلے سے تین روز قبل تالاب میں زیر تجربہ مینڈکوں کا فرار محض کوئی اتفاق نہیں تھا، کیونکہ انہیں زلزلے کے کئی روز بعدآفٹرشاکس کی شدت کم ہونے پر دوبارہ تالاب میں رہنے پر مجبور کیا جاسکا تھا۔

ناسا کے ماہرین نے اندازہ لگایا کہ زیر زمین چٹانوں کے کھسکنے سے پہلے یقیناً ایسی کیمیائی تبدیلیاں آتی ہیں ، جسے مینڈکوں کا حسیاتی نظام محسوس کرلیتا ہے اور انہیں اپنی جان بچا کر بھاگنے پر مجبور کردیتا ہے۔

تجربات سے انہیں معلوم ہوا کہ چٹانیں اچانک اپنی جگہ نہیں چھوڑتیں بلکہ شدید دباؤ کے تحت یہ عمل کئی روز پہلے شروع ہوجاتا ہے۔ اس دوران چٹانیں برقائے ہوئے ذرات خارج کرنا شروع کردیتی ہیں جو زمین کی سطح پر موجود پانی کو متاثر کرتے ہیں۔ ناسا کے سائنس دان فرائیڈ من کا کہناہے کہ بہت ممکن ہے کہ پانی میں یا اس کےقریب رہنے والے کچھ جانداروں پر،مثلاً مینڈک وغیرہ، زمین کے اندر سے خارج ہونے والی برقی لہروں کا شدید اثرہوتا ہو جس سے بچنے کے لیے وہ وہاں سے چلے جاتے ہوں۔

ناسا ہی کے ایک اور سائنس دان ڈاکٹر فرینڈ کہتے ہیں کہ زلزلے سے قبل چٹانوں سے نکلنے والے والے برقی ذرات زمین کی سطح پر آکر ہوا میں آئن پیدا کردیتے ہیں۔
آئن مثبت چارج رکھنے والے برقی ذرات ہوتے ہیں۔ فضا میں ان کی زیادتی کئی لوگوں میں سردرداور متلی کی کیفیت پیدا کردیتی ہے۔ اس کے علاوہ ان کے خون میں دباؤ بڑھانے والے ہارمونز کی سطح بھی بلند ہوجاتی ہے۔ لیکن چونکہ فضا میں برقی ذرات کی موجودگی کی اور بھی کئی وجوہات ہوتی ہیں اس لیے سردرد اورمتلی کو زلزلے کی پیش گوئی نہیں سمجھا جاسکتا۔

جب کہ ماہرین کا کہناہے کہ کسی ایسی جگہ سے جو فالٹ زون یعنی زلزلوں کے امکانی علاقے میں واقع ہو، پانی سے بڑے پیمانے پر مینڈکوں کے فرار کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

اس کے علاوہ کئی دوسرے عوامل بھی زلزلے کے امکان کی نشان دہی کرتے ہیں۔ مثلاً اکثر پالتو جانورزلزلے سے کئی گھنٹے قبل گھبراہٹ اور پریشانی میں عجیب و غریب حرکات کرنے لگتے ہیں۔ فالٹ زون میں زلزلے سے پہلے فضا میں تابکاری کی سطح بڑھ جاتی ہے اور کرہ ہوائی کے آئن زون میں برقی ذرات کی مقدار تبدیل ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ اگر آسمان پر بادل ہوں تووہ اس سے کہیں مختلف دکھائی دیتے ہیں جیسا کہ عموماً نظر آتے ہیں۔

مینڈکوں نے سائنس دانوں کے لیے تحقیق کے نئے دروازے کھول دیے ہیں اوریہ امکان پیدا ہوگیا ہے کہ مستقبل قریب میں زلزلے سے کئی گھنٹے قبل اس کی پیش گوئی کی جاسکے گی۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ زلزلہ پیما مراکز میں مینڈک پالے جائیں گے بلکہ ایسا نظام تیار کیا جاسکتاہے جو زیر زمین چٹانوں سے خارج ہونے والے برقی ذرات کی مؤثر پیمائش کرکے خطرے سے پیشگی خبردار کرسکے گا۔