Wednesday 14 December 2011

دورِ دروغ

تحریر:۔   مسعود نبی خان 14-12-2011
ہم جس دورمیں رہتے ہیں اسے سائنس اور ٹیکنالوجی میں بے پایاں ترقی کی بناء پر انفارمیشن یعنی اطلاعات کا دور کہا جاتا ہے ۔ مواصلات کے میدان میں تو ترقی انتہائی حدود کو پہنچ چکی ہے اور سائنس نے اسے حتمی طور پرایسی بلندیوںپر پہنچا دیا ہے کہ تقریباً پوری دنیاکے لوگ باہمی رابطے کی وجہ سے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں ۔ میڈیا اتناطاقتورہے کہ اب کسی شخص کو یہ جاننے کے لئے کہ اطراف عالم میں کیا ہورہا ہے اور قومی و بین الاقوامی تازہ ترین خبروںکے لئے  صبح کے اخبار کا انتظار نہیں ہوتا، بس ایک ’’کلک‘‘ کی دیر ہوتی ہے اور اسے تمام معلومات انتہائی تازہ ترین اور بالکل صحیح وقت اور موقعے کی دستیاب ہوتی ہیں، اب تویہ عالم ہے کہ اگر کوئی شخص امریکہ نہیں گیا تو اسے کم و بیش اتنی ہی معلومات ہونگی جتنی کہ اپنے علاقے، تہوار، سڑکوں کے نام، فون کوڈز، شہریوںکے ریکارڈ، آبادی ، موسم اور دیگر جغرافیائی حالات کے متعلق کسی امریکن کو ہونگی۔
اب اسے ہماری بدقسمتی پر ہی محمول کیا جائے گا کہ خوش قسمتی سے ہم سائنس اور ٹیکنالوجی میں اس قدر ترقی تو کر چکے ہیں کہ عہد حاضر کو اطلاعات و معلومات یعنی انفارمیشن کا زمانہ کہا جاتا ہے، مگر میں اس دور اطلاعات کو ’’دورِ دروغ‘‘ کہوں گا یعنی جھوٹ پر مبنی اطلاعات کی وجہ سے بجائے ـ"information age" کہنے کے اسے  "misinformation age" کہنا زیادہ مناسب ہوگاا ، اس سلسلے سے سب سے بڑا ہاتھ تو میڈیا کا ہے جوخصوصاً پاکستان میں محض اپنے مالی فائدے کے لئے ملک و قوم کی قیمت پرآزادی کا انتہائی ناجائز فائدہ اٹھا رہا ہے اور غلط یا ابہام پیدا کرنے والی نہ صرف خبریںبلکہ ایسے مذاکراتی پروگرام و مباحثوںکے علاوہ ایسے شخصی پروگرام نشر کرتا ہے جس سے عوامی آراء کو مخصوص پروپیگنڈے کے تحت اپنے راشی فنانسروں کے من پسند زاویئے پر موڑا جاسکے ، اس کے علاوہ ای۔میلز، ٹیکسٹ میسیجز، اور خود ہمارے سیل فون اس کا ذریعہ ہیں جس سے مبہم خبریں اور اطلاعات پہنچتی ہیں، ان میں بیشتر تو جھوٹ و افتراء پردازی پر مبنی ہوتی ہیں بقیہ میں دیگر مصالحہ اس قدر ابہام پیدا کردیتا ہے کہ اگر اصل خبر ہو بھی تو وہ چھپ جائے اور خبر دینے والے پہلے ذریعے کے من چاہے پروپیگنڈے کا اثر سب سے زیادہ نمایاں ہو ، ہم میں سے اکثر کو جب ایسی صورت حال سے واسطہ پڑتا ہے تو ہم ان غیر مصدقہ خبروںاورافواہو ں کا حصہ بن جاتے ہیں اور اسطرح شہر یا ملک کی آبادی کی ایک بڑی تعداد اس جھوٹ کے زبان زد عام ہونے کی بناء پر اس کی اصل حقیقت جانے بغیر اس پر یقین کرنے لگتی ہے ۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ خصوصاً ہمارے ملک کی نیم اور نا خواندگی کی بناء پر اکثر افراد جہاں معلومات حالانکہ  صرف ایک کلک کی دوری پر ہوں وہاںپر بھی سنی سنائی باتوں تیزی سے یقین کرتے ہیں ۔     
ایسی باتوں کا اثر جہاں ہمارے ملک کی نیم خواندگی اور نا خواندگی کی وجہ سے خصوصاً دیرپا اور تا دیر رہتا ہے وہیں عمومی طور پر ایسا پوری دنیا میں بھی ہوتا ہے مگر اس کی شدت  اور پائیداری کم ہوتی ہے ، مثال کے طور پر امریکہ کے صدارتی امیدوار بارک اوبامہ کی بیوی سے منسوب  ایک بیان پر امریکہ کے ایک نیٹ بلاگ پر کافی لے دے ہوئی کیونکہ وہ مسلسل یہ کہہ رہے تھے کہ اوبامہ کی بیوی نے ’’فوکس ٹی وی‘‘ پر یہ بیان دیا ہے مگر جلد ہی جب تحقیقات کی گئیں تو پتہ چلا کہ تمام معاملہ دروغ گوئی یعنی جھوٹ پر مبنی تھا اور اوبامہ کی بیوی نے ٹی وی پر ایسا کوئی بیان نہیں دیا تھا، اور تمام خبر اور بحث جھوٹ او رافتراء کا پلندہ تھی۔
ایسا ہی کچھ حال ہمارے ملک کاہے جس میں آپ کو لاتعداد ایسی مثالیں مل جائیں گی جس میں ملک و قوم کی قیمت پر ٹیکسٹ میسیجز سے لیکر نامور میڈیا تک جھوٹ کے پہاڑ کھڑے نظر آئیں گے مثلاً سابق صدر پرویز مشرف کو کبھی ترکی دوڑا دیا جاتا تھا ، تو کبھی انہیں ملک چھوڑ کر امریکہ بھگا دیا جاتاتھا، شیخ رشید کے بارے میں انتخابات سے قبل یہ افواہ گرم تھی کہ انہوں نے دبئی فرار ہوکر وہاں سکونت اختیار کرلی ہے اور وہیں کاروبار کرہے ہیں، اور پھر کتنے دکھ اور افسوس کے ساتھ میں یہ لائنیں لکھ رہا ہوں کہ فاروق ستار کے جھوٹے بہیمانہ قتل کی افواہ نے تو کورنگی کے علاقے میں دو گروہوں کے درمیان تصادم کی وجہ بن کر کتنے ہی لوگوں کو موت کی بھینٹ چڑھا دیا۔ اس کے علاوہ موجودہ صدر آصف علی زرداری کے حوالے سے یہ بات پھیلائی جارہی ہے کہ وہ دبئی میں انتقال کرگئے ہیں۔
دراصل مختلف سیاسی اور مذہبی رنگ لئے ہوئے دولت و اقتدار کی ہوس میں ڈوبے ان جھوٹے پروپیگنڈوں  کے لئے جدید ترین ٹیکنالوجی استعمال کی جاتی ہے اور عوامی آراء پر اثر انداز ہوکر اپنے مذموم اہداف کی تکمیل کی جاتی ہے ، اور اس کا سب سے آسان ذریعہ ای۔میلز اور ٹیکسٹ میسیجز ہیں جو زندگی کے مختلف طبقوں میں صرف ایک دفعہ بھیجے جاتے ہیں باقی عوام الناس کے یہ طبقے خود ہی ان کے چکروں میں آکر ان افواہوں کو مزید پھیلانے کا باعث بنتے ہیں اور انہیں ابتدا میں بھیجنے والوں کے عزائم کی تکمیل کرتے ہیں۔ ڈنمارک کے ایک کارٹونسٹ کی جانب سے توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کے ایک طویل عرصے بعد پاکستان میں کام کرنے والی ایک غیر ملکی کمپنی پر عتاب ڈھانے کے لئے اس واقعے کو ہتیار بنایا گیا ،خودمجھے ایک ای میل موصول ہوئی کہ میں مذکورہ کمپنی کی SIMاپنے فون سے نکال کر پھینک دوں اب دینی حمیت کا تقاضا تو یہی تھا کہ میں ایسا کرتا مگر مجھے معلوم تھا کہ مذکورہ کمپنی ڈنمارک کی نہیں ناروے کی ہے اور پھر یہ کہ خاکوں کی اشاعت سے اس کا دور دورتک کوئی واسطہ نہیں ہے مگر میرے ملک کے بھولے عوام کی اکثریت نے اس پر یقین کیا اور حقیقیت حال جاننے کی کوشش نہیں کی کہ آیا یہ کمپنی واقعی ڈنمارک کی ہے بھی یا نہیں ، ایسا ہی حال ہمارے میڈیا کے  بدنام زمانہ نام نہادنامور چینل کا ہے جو ایسی خبروں پر پھرتی دکھاتے ہوئے فوراً سے پیشتر متعلقہ اداروں،تنظیموں، اشخاص اور ملکوں سے مالی فائدہ حاصل کرکے ایسی جھوٹی خبریں اتنے ابہام میں پیش کرتا ہے کہ بھولے عوام پروپیگنڈے کا شکار ہوجاتے ہیں اور دیگر چینل اس چینل کی نشریات کو بنیاد بنا کر بغیر کسی وجہ کے ہی اس بات کی تحقیق کئے بغیر اس پروپیگنڈے کا حصہ بن جاتے ہیں۔  

میرے خیال میں میڈیا کا یہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ، غیر سنجیدہ اور غیر متوازن روّیہ اور عام آدمی کا سادہ لوحی پر مبنی طرز عمل صرف اس لئے ہے کہ ہمارے ہاں اس سلسلے سے کوئی چیک اینڈ بیلنس کا نظام موجود نہیں ہے، حالانکہ ہم کو اس کی شدید ضرورت ہے ۔جھوٹی اور افتراء پردازی پر مشتمل خبریں نشر کرنے والے ایسے ٹی وی چینلز کے اجازت نامے منسوخ کردینے چاہیئں،اور اس بات کا دھیان رکھا جائے کہ کسی اور ذریعے سے ایسے عناصر دوبارہاس فیلڈ میں داخل ہی نہ ہوسکیں، انٹر نیٹ سروس مہیا کرنے والے اداروں کو چاہیئے کہ وہ ایسے عناصر پر نظر رکھیںجو اس کے غلط استعمال کی وجہ بنتے ہیں اور مجاز حکام کو باقاعدہ رپورٹ کرکے ایسے عناصر کی بیخ کنی کے لئے انہیں جرمانہ و سزائیں دلوائیں۔اور پھر سب سے بڑھ کر ہم لوگ خود بطور سامع ایسی غیر مصدقہ خبریں سن کر بجائے اس کے کہ اسے سوچے سمجھے بغیر مزید آگے بڑہائیں  اسے وہیں اگر دبادیں تو من حیث القوم ہم بہت ساری بلا وجہ کی ذہنی مشکلات اور آفات ناگہانی میں مبتلا ہونے کے خدشات سے بچ جائیں گے۔   

No comments:

Post a Comment