Friday 16 December 2011

ہگس بوسون کو کائنات کا بنیادی تخلیقی جزو سمجھا جاتا ہے


سوئٹزرلینڈ کے شہر جینیوا میں ’لارج ہیڈرون کولائیڈر‘ منصوبے سے وابستہ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے ممکنہ طور پر تجربات کے دوران ہگس بوسون یا ’گاڈ پارٹیكل‘ کا مشاہدہ کیا ہے۔
ہگس بوسون وہ تخیلاتی لطیف عنصر یا ’سب اٹامک‘ ذرہ ہے جسے اس کائنات کی تخلیق کی وجہ قرار دیا جاتا ہے۔
تاہم سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ کسی فیصلہ کن ثبوت اور اسے ایک ’دریافت‘ قرار دینے کے لیے انہیں ابھی مزید تجربات کرنا ہوں گے۔گزشتہ دو برس سے سوئٹزرلینڈ اور فرانس کی سرحد پر بنائی گئی ایک ستائیس کلومیٹر طویل سرنگ میں سائنسدان انتہائی باریک ذرات کو آپس میں ٹکرا کر اس لطیف عنصر کی تلاش کر رہے ہیں جسے ہگس بوسون یا خدائی عنصر کہا جاتا ہے۔
اگر سائنسدان اس عنصر کو ڈھونڈنے میں کامیاب رہتے ہیں تو کائنات کی تخلیق سے متعلق کئی رازوں سے پردہ اٹھانا ممکن ہو سکے گا۔ اس تحقیق پر اب تک اربوں ڈالر خرچ کیے جا چکے ہیں اور اس پر تقریبا آٹھ ہزار سائنسدان گزشتہ دو برس سے مسلسل کام کر رہے ہیں۔
ہگس بوسون کو کائنات کا بنیادی تخلیقی جزو سمجھا جاتا ہے اور یہ پارٹیکل فزکس کے اس سٹینڈرڈ ماڈل یا ہدایتی کتابچے کا لاپتہ حصہ ہے۔ یہ سٹینڈرڈ ماڈل کائنات میں عناصر اور قوت کے باہمی رابطے کو بیان کرتا ہے۔
اس تحقیق میں شروعات سے ہی شامل رہنے والی بھارتی سائنسدان ڈاکٹر ارچنا شرما نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ’یہ بھوسے سے بھرے کھلیان میں سوئی تلاش کرنے جیسا کام ہے۔ ہم سوئی کو تلاش کرنے کے راستے پر ہیں لیکن ابھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ سوئی ہمیں مل گئی ہے‘۔
ان تجربات کے دوران ’لارج ہیڈرون کولائیڈر‘ میں پروٹونز کو روشنی کی رفتار سے ٹکرایا گیا جس سے ویسی ہی حالت پیدا ہوئی جیسی کائنات کی تخلیق سے ٹھیک پہلے بگ بینگ کے واقعہ کے وقت تھی۔ تجربے کے دوران پروٹونز نے ایک سیکنڈ میں 27 کلومیٹر لمبی سرنگ کے گیارہ ہزار سے بھی زیادہ چکر كاٹے، اسی عمل کے دوران پروٹون مخصوص جگہوں پر آپس میں ٹكرائے جس سے توانائی پیدا ہوئی۔
سائنسدان دیکھنا چاہتے ہیں کہ جب پروٹون آپس میں ٹكرائے تو کیا کوئی تیسرا عنصر موجود تھا جس سے پروٹون اور نيوٹرن آپس میں جڑ جاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ’ماس‘ یا کمیت کی تخلیق ہوتی ہے۔
ڈاکٹر ارچنا کا کہنا ہے کہ ’فطرت ، قدرت اور سائنس کے بارے میں ہماری آج تک کی جو سمجھ ہے اس کے تمام پہلوؤں کی سائنسی تصدیق ہو چکی ہے ، ہم سمجھتے ہیں کہ کائنات کی تعمیر کس طرح ہوئی ، اس میں ایک ہی کڑی ادھوری ہے ، جسے ہم اصول کے طور پر جانتے ہیں لیکن اس کے وجود کی تصدیق باقی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’وہی ادھوری کڑی ہگس بوسون ہے ، ہم اسے پکڑنے کی کگر پر پہنچ چکے ہیں ، ہم اسے ڈھونڈ رہے ہیں ، اس میں وقت لگ سکتا ہے ، ہمارے سامنے ایک دھندلی تصویر ہے جسے ہم توجہ سے پڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں‘۔
یہ اس وقت دنیا کا سب سے بڑا سائنسی تجربہ ہے ، ڈاکٹر ارچنا کہتی ہیں، ’اگر ہمیں گاڈ پارٹیكل مل گیا تو ثابت ہو جائے گا کہ فزکس سائنس صحیح سمت میں کام کر رہی ہے ، اس کے برعکس اگر یہ ثابت ہوا کہ ایسی کوئی چیز نہیں ہے تو کافی کچھ نئے سرے سے شروع کرنا ہوگا اور سائنس کے بارے میں ہماری سمجھ کو بدلنا ہوگا‘۔
گاڈ پارٹیكل ہے کیا؟
ڈاکٹر ارچنا بتاتی ہیں، ’جب ہماری کائنات وجود میں آئی اس سے پہلے سب کچھ ہوا میں تیر رہا تھا، کسی چیز کا وزن نہیں تھا۔ جب ہگس بوسون بھاری توانائی لے کر آیا تو تمام عناصر اس کی وجہ سے آپس میں جڑنے لگے اور ان میں ماس یا کمیت پیدا ہوگئی‘۔

پارٹیكل یا انتہائی لطیف عناصر کو سائنسدان دو زمروں میں باٹتے ہیں، مستحکم اور غیر مستحکم۔ مستحکم عناصر کی بہت لمبی عمر ہوتی ہے جیسے پروٹون اربوں كھربوں سال تک رہتے ہیں جب کہ کئی غیر مسحتکم عناصر زیادہ دیر تک ٹھہر نہیں پاتے اور ان کا رویہ بدل جاتا ہے۔
ڈاکٹر ارچنا کہتی ہیں، ’ہگس بوسون بہت ہی غیر مستحکم عنصر ہے، وہ بگ بینگ کے وقت ایک پل کے لیے آیا اور ساری چیزوں کو کمیت دے کر چلا گیا۔ ہم کنٹرولڈ طریقے سے، بہت چھوٹے پیمانے پر ویسے ہی حالات پیدا کر رہے ہیں جن میں ہگس بوسون آیا تھا‘۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ جس طرح ہگس بوسون کا خاتمہ ہونے سے پہلے اس کی شکل بدلتی ہے اس طرح کے کچھ انتہائی لطیف ذرہ دیکھے گئے ہیں اس لیے امید پیدا ہو گئی ہے کہ یہ تجربہ کامیاب ہوگا۔
ان تجربات کے نتائج نے طبیعات کے ماہرین کو چونکا دیا ہے کیونکہ یہ طبیعات کے ایک بنیادی اصول سے متصادم ہیں۔
اس تجربے کے دوران روشنی کی رفتار کے ساتھ سفر کرنے والے نیوٹرینوز کو سرن لیبیاٹری سے اٹلی میں سات سو کلو میٹر کے فاصلے پر واقع گران ساسو لیبیاٹری بھیجا گیا۔ تاہم نیوٹرینو کی واپسی روشنی کی رفتار سے ایک سیکنڈ قبل ہوئی۔
اگر ان نتائج کی تصدیق ہو جاتی ہے تو اس سے مشہور ماہرِ طبیعات آئن سٹائن کے نظریۂ اضافت کے ایک بڑے حصے کی تردید ہو جائے گی جس کے تحت روشنی کی رفتار سے کوئی چیز آگے نہیں بڑھ سکتی۔
جمعہ کو سائسندان سرن میں ایک کانفرنس کے دوران ان نتائج پر بحث و تمحیص کریں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ہم نے ہر ممکنہ توجیہ تلاش کرنے کی کوشش کی۔
سرن‘ کے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ وہ ان نتائج پر یقین کرنے کے معاملے میں مخمصے میں ہیں اور انہوں نے دیگر سائنسدانوں سے کہا ہے کہ وہ ان نتائج کی آزادانہ طور پر تصدیق کریں۔
اس پیشکش کے بعد امریکی ریاست الینوائے میں سائنسدانوں نے کہا ہے کہ انہوں نے چند برس قبل ایسا تجربہ کیا تھا اور وہ اب دوبارہ اسے مزید احتیاط اور درستگی کے ساتھ کریں گے تاکہ ’سرن‘ کے دعوے کی تصدیق یا تردید ہو سکے۔
دریں اثناء سائنسدانوں کے ایک دوسرے گروپ کا کہنا ہے کہ وہ اس دعوے پر تبصرہ کرنے پر احتیاط برت رہے ہیں۔ اوپیرا کولیبریشن کے اینتونیو ایرادیتو کا کہنا ہے ’ہم نے ان نتائج سے حاصل ہونے والی معلومات کی پوری چھان بین کرنے کی کوشش کی ہے‘۔
اینتونیو نے بتایا کہ ہم غلطی تلاش کرنا چاہتے تھے جس میں معمولی غلطی، زیادہ الجھی ہوئی غلطی یا کوئی ایسی غلطی شامل ہو جس کے اثرات ہوں مگر ہم کوئی غلطی تلاش نہیں کر سکے۔
جب آپ کوئی غلطی تلاش نہیں کر سکتے تو آپ کہتے ہیں کہ اب میں مجبور ہوں کہ باہر جا کر کمیونٹی سے کہیں کہ وہ اس کی مزید جانچ کرے‘۔
.ڈاکٹر ایرادیتو کا کہنا ہے کہ میری خواہش ہے کہ ان تجربات کے نتائج کو جانچنے کے لیے کسی اور سے بھی تجربہ کرایا جائے اور جب وہ تجربہ وہی نتائج دے گا جو میں نے بتایا ہے تو پھر میں مطمئن ہو جاؤں گا۔
آئن سٹائن کے نظریے پر اب تک ہزاروں تجربات کیے گئے اور ان میں کوئی بھی ذرہ روشنی کی رفتار سے آگے نہیں جا سکا۔ لیکن ڈاکٹر ایرادیتو اور ان کے ساتھیوں نے گزشتہ تین سالوں کے دوران اپنے تجربات جاری رکھے جس کے بعد یہ معلوم ہوا کہ سب اٹامک ذرات کی رفتار روشنی کی رفتار سے زیادہ ہے۔

No comments:

Post a Comment