Wednesday 14 December 2011

توانائی کے شعبے کے لئے حکومتی پالیسی


  
مسعود نبی خان 14-12-2011
آج کل اخبارات کی شہ سرخیوں میں بجلی کی کم پیداوار کی بازگشت سے بھی آگے پاکستان کو درپیش اہم مسئلہ یہاں توانائی کے شعبے میں ایک مؤثر اور واضح پالیسی کا فقدان ہے، جو تیل و گیس کی پیداور سے لیکر صارفین و صنعتوں کے استعمال اور معیشت کی ریڑھ کی ہڈی یعنی بجلی کی پیداوار تک کا مکمل احاطہ کرتی ہے۔ ہمیں صرف طلب اور رسد کے درمیان خلیج ہی کو نہیں پر کرنا ہے بلکہ ہمیں بجلی کی پیداوار ی لاگت کو بھی کم کرنا ہے تاکہ یہ ہماری اقتصادیات کے تناظر میں قابل استطاعت قیمتوں پر آجائے۔ مہنگی بجلی لوڈ شیڈنگ کو کم نہیں کرسکتی اور پھر یہ قابل قبول بھی نہیں ہے۔
بجلی کی پیداوار کے شعبے کا ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ یہاں طویل المدتی بنیادوں پر ایندھن کے ذرائع سے بجلی پیدا کی جاتی رہی ۔ جب کہ پاکستان روائتی طور پر پن بجلی پر انحصار کرتا ہے اور تھرمل بجلی کی پیداوار مقامی گیس کی پیداوارکے استعمال سے ہوتی ہے تاکہ بھاری مقدار میں بجلی پیدا کی جاسکے۔پچھلے پچیس برسوں میں بجلی کی پیداوار میں بھاری فرنیس آئل(HFO)     کے استعمال کے متعارف ہونے کے بعد درآمدی HFO  کے استعمال سے بجلی کی قیمتیں مزید بڑھ گئیں ۔ اس طرح بجلی کی مجموعی پیداواری قیمتوں اور کرنٹ اکائونٹ بیلنس پر بڑا منفی اثر پڑا۔ پاکستان میں 1980  ء  اور 1990 ء  کے عشروں میں بجلی کی کمی کا ایک فوری رد عمل یہ ہوا کہ  HFO  سے پیدا شدہ بجلی پر انحصار بڑھ گیا، جس کا اثر یہ ہوا کہ بجلی کی پیداوار کے نجی شعبے میں 3,500  میگا واٹ بجلی اس تیل سے پیدا کی جانے لگی ، اس عرصے میں پن بجلی کی پیداوار کو بڑھانے کے لئے اس پر کوئی ترقیاتی کام نہیں ہوا، صرف اتنا ہوا کہ گیس سے پیدا کی جانے والی بجلی کا ایک پلانٹ نصب کیا گیا ۔جب مقامی طور پر پیدا کی جانے والی گیس کی امدادی قیمتوں میں بین الاقوامی طور پر دستیاب گیس کی قیمتوں کے تناظر میں کمی کی گئی تب بھی پاور سیکٹر کو اس کی ضروریات کے مطابق گیس کی فراہمی عمل میں نہ آسکی۔ حکومت پاکستان کی موجودہ پالیسی گھریلو صارفین اور کھاد کی پیداوار کے شعبے کو ترجیحی بنیادوں پر گیس فراہم کرتا ہے، ان دونوں شعبوں کے لئے گیس کی قیمتیں انتہائی نچلی سطح پر رکھی گئی ہیں۔ اس پالیسی میں تبدیلی کی ضرورت ہے اور بجلی کی پیداوار کے شعبے کو ترجیحی بنیادوں پر گیس کی فراہمی ہونی چاہئے کیونکہ ان تمام شعبہ جات میں استعمال برابر ہے لہذا گیس سے پیدا کی گئی بجلی کی پیداوار کو بھی بڑھانا چاہئے۔ 100  تا 200   MMCFD گیس  بجلی کے شعبے کو مزید بڑھانے سے بجلی کی پیداوار میں 500  تا 1000  میگا واٹ اضافہ ہوسکتا ہے۔
اس کے علاوہ مقامی گیس سے پیدا کی گئی بجلی کی لاگت تیل سے پیدا شدہ بجلی کی لاگت سے تین گنا کم ہوتی ہے ۔ اس کے علاوہ حکومت کو اپنی پالیسی کے تحت کوئلے سے پیدا ہونے والی بجلی کے اسٹیشنوں کے قیام کو بھی ترجیحات میں شامل کرنا چاہئے ، اور اس کے ساتھ ساتھ کوئلے کے مقامی ذخائر (تھر کول) پر بھی توجہ دینی چاہئے۔ جیسے ہی مقامی کوئلے کی پیداوار شروع ہو یہ اسٹیشن مقامی کوئلے سے کام کرنے لگیں، فی الحال درآمدی کوئلہ حرارت کی بنیاد پر مقامی گیس کی قیمتوں سے بھی سستا پڑتا ہے۔ طویل المدتی بنیاد پر مقامی کوئلہ ہی ملک کی بھاری ضروریات کو پورا کرسکتا ہے ۔ متوازی طور پر جیسے جیسے بجلی کی طلب میںاضافہ ہوگا پن بجلی کی پیداوار میںاضافے کی بھی کوششیں کرنی ہوں گی۔اس ضمن میں ہمیں کئی بڑے ڈیموں کی ضرورت ہے جن کا منصوبہ پہلے ہی بنایا جاچکا ہے، اس کے ساتھ ساتھ کئی چھوٹے اور مائیکرو پراجیکٹ بھی شروع کرنے ہوں گے۔بڑے اور میگا ڈیموں کی ضرورت صرف بجلی کی پیداوار کے لئے نہیں ہوگی بلکہ مستقبل میں پانی کی شدید ممکنہ کمی پر قابو پانے کے لئے بھی ہمیں ان کی ضرورت ہے۔اس کے علاوہ بجلی کی پیداوار کے لئے نئے متبادل ذرائع یعنی ہوا سے بجلی کی پیداوار کی بھی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی، حالانکہ یہ ہماری بجلی کی بنیادی طلب کو پورا نہیں کرسکتے مگر ہمیں ان ہی میں سے اپنی مختصر، وسطی اور طویل المدتی ترجیحات کو چننا ہوگا۔ ایک اندازے کے مطابق یہ ذرائع 10  برسوں میں 5%   بجلی کی طلب کو پورا کرسکیں گے۔
بجلی کی چوری ایک شدید مسئلہ ہے ، اور لوڈ شیڈنگ سیمت بجلی کی اونچی قیمتوں کی ایک بڑی وجہ ہے۔ اس ضمن میں سخت اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ بجلی چوری کی حوصلہ شکنی ہو، مثال کے طور پر اس سلسلے میں قوانین میں ترمیم اور ان کا سختی سے نفاذ اس برائی کو روک سکتا ہے۔
اس کے علاوہ حکومت کو چاہئے کہ وہ بجلی کی مد میں دی جانے والی سبسڈی پر نظر ثانی کرے، اور گھریلو صارفین، صنعتی صارفین اور تجارتی صارفین کو دی جانے والی سبسڈی ہم آہنگ کرے ، اور اس سبسڈی والی بجلی کی مقدار کا تعین انتہائی ضروری کی سطح تک لے آئے۔ استعمال پر قیمتوں میں کمی بیشی کی بھی دوبارہ تعین کی ضرورت ہے۔ بجلی پر دی جانے والی سبسڈی کی موجودہ حالت انتہائی غیر مستحکم ہے جس کو بتدریج کم کرتے ہوئے ۔
بجلی کے پیداواری شعبے پر دوسرے شعبوں سے واجب الوصول رقوم مسلسل بڑھتی جارہی ہیں، جو درحقیقت پوری معیشت کے لئے ایک بڑا خطرہ ہے۔ اس مسئلے کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ بجلی کی مختلف پیداواری اور تقسیم کار کمپنیوں کے لئے یہ نا ممکن ہوگیا ہے کہ حکومتی اداروں اور شعبوں کی جانب سے عدم ادائیگیوں کے باوجود صرف صارفین سے وصول شدہ رقوم سے اپنی پیداواری صلاحیت کو برقرار رکھیں ۔ اس کا ایک تعلق سبسڈی کے مسئلے سے بھی ہے کہ تقسیم کار کمپنیاں حکومت پاکستان کے اداروں کو فراہم کی جانے بجلی کی سبسڈی شدہ قیمتوں پر بھروسہ کرتی ہیںکہ وہ ان کی آمدنی کا ایک یقینی حصہ ہوگا، مگر ا س سے مسلسل مالیاتی مسئلہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومتی اداروں اور نقصان میں جانے والے اداروں کی جانب سے ایک تو عدم ادائیگی دوسرے ان اداروں کی بجلی نہیں کاٹی جاسکتی اور انہیں فراہمی بھی جاری رکھنا لازمی ہوتی ہے کہ اس سے عام لوگ متاثر ہوتے ہیں۔ اس طرح ان اداروں پر بجلی کی مد میں واجب الادا رقوم کی مالیت کئی ارب ڈالر سے متجاوز ہوجاتی ہے، جس کے اثرات تیل کے فراہم کنندگان، گیس کے فراہمی کے اداروں اور آئل ریفائنریز کی ادائیگیوں پر پڑتے ہیں۔ حکومت پاکستان نے واپڈا اور پیپکو جیسے اداروں کی واجب الادا رقوم کے لئے بینک فنانسنگ کا طریقہ متعارف کروایا مگر اس طرح تو مسئلہ صرف ایک بار حل کیا جاسکتا ہے ۔ اس مسئلے سے بچنے کے لئے حکومت پاکستان کو چاہئے کہ وہ صوبائی اور ریجنل حکومتوں کے وفاق سے فنڈز کی منتقلی کے وقت ہی ان ادائیگیوں کو منہا کرلے ، اس طرح ٹیرف بھی بجلی کی اصل لاگت پر آجائے گا۔
قصہ مختصر یہ کہ توانائی کے شعبے کے لئے ایک جامع و مؤثر پالیسی کی ضرورت ہے ، جس میں گیس کی فراہمی میں بجلی کی پیداوار کو ترجیح دی گئی ہو۔ مجموعی طور پر طویل المدتی اقدامات کی ضرورت ہے ، جن میں پاور جنریشن پلان، کوئلے ،گیس اور پانی سے پیدا کی جانے والی بجلی کو ترجیحات میں شامل کرنا ہوگا۔ بجلی کی سبسڈی امیر کبیر صارفین کے لئے ختم کرنا ہوگی اور صارفین کو بجلی کی اصل لاگت سے آگاہی دینی ہوگی۔اس کے ساتھ ساتھ بجلی کی چوری اور بجلی کی پیدوار کے شعبے میں نااہلی کو کم کرنا ہوگا۔ صرف ان ہی طریقوں سے بجلی کی قیمتیں عام عوام تک پہنچنے تک کم ہوسکیں گی اور اس ضرورت کے تمام مسائل پر قابو پایا جاسکے گا۔ 
         


































No comments:

Post a Comment