Saturday 14 January 2012

محبت کے دو حق

محبت کے دو حق
یاد کی دوقسمیں ہیں، نمبر۱۔ اﷲ تعالیٰ کو خوش کرتے رہو، نمبر۲۔اﷲ کو ناراض نہ کرو۔ بتاو! محبوب کے دو حق ہیں یا نہیں؟ جتنا اپنے محبوب کو خوش کرنا عاشقوں کو مطلوب ہوتا ہے اتنا ہی ان کی ناخوشی سے بچنا بھی مطلوب ہوتا ہے ورنہ پھر یہ محبت نہیں ہے، یہ شخص خود غرض اور بے وفاءہے۔ بدایوں کا ایک شاعر تھا فانی بدایونی، اس کو اپنی بیوی سے بہت محبت تھی، ایک دن بیوی ناراض ہوگئی تو اس کی نیند اُڑگئی۔ اس پر ظالم کا شعر دیکھو
ہم نے فانی ڈوبتے دیکھی ہے نبضِ کائنات
جب مزاجِ یار کچھ برہم نظر آیا مجھے
یعنی جب میری بیوی ذرا سی ناراض ہوتی ہے تو میری پوری کائنات اندھیری ہوجاتی ہے۔ کیوں صاحب! بیوی کی ناراضگی سے تو پوری کائنات اندھیری ہو اور مولائے کائنات، خالقِ کائنات اور اپنے پالنے والے کی ناراضگی میں سوال کرتے ہو کہ صغیرہ گناہ ہے کہ کبیرہ گناہ ہے، چھوٹا گناہ ہے کہ بڑا گناہ ہے، بیوی کی تھوڑی سی ناراضگی گوارا نہیں کرتے اور یہاں صغیرہ کبیرہ پوچھتے ہو۔ اﷲ کا عاشق ہر مکروہ کام سے بھی بچتا ہے کیونکہ مکروہ کام کرنے والا محبوب نہیں ہوسکتا اَلمَکرُوہُ ھُوَ ضِدُّ المَحبُوبِ مبارک ہیں وہ بندے جو ہر سانس کو اﷲ پر فدا کرتے ہیں، مبارک ہیں وہ بندے جن کی آنکھیں اﷲ کی یاد میں اشکبار ہیں، مبارک ہیں وہ لوگ جن کے دل اﷲ کی محبت میں تڑپ رہے ہیں
دلِ مضطرب کا یہ پیغام ہے
ترے بن سکوں ہے نہ آرام ہے
تڑپنے سے ہم کو فقط کام ہے
یہی بس محبت کا انعام ہے
جو آغاز میں فکرِ انجام ہے
ترا عشق شاید ابھی خام ہے
بعض لوگ ڈاڑھی کے نقطہ آغاز ہی سے گھبراتے ہیں کہ لوگ کیا کہیںگے۔ ایک صاحب نے حکیم الامت کو لکھا کہ مجھے ڈر ہے ڈاڑھی رکھنے پر لوگ میرا مذاق اڑائیں گے۔ حضرت نے فرمایا کہ ارے ظالم! تو بھی تو لوگ ہے لُگائی تو نہیں ہے تو کیوں لوگوں سے ڈرتا ہے۔ اﷲ کے راستے میں ہمتِ مردانہ چاہیے، عورتوں کی شکل بنانا یہ مردوں کے لیے نازیبا ہے، اپنی بیوی کے گال سے اپنے گال کیوں مشابہ کرتے ہو؟ اگریہ بال بیکار ہوتے تو اﷲ تعالیٰ پیدا ہی نہ کرتے اور ہمارے گالوں کو عورتوں کے گال کی طرح چکنا پیدا کرتے لیکن اﷲ نے عورتوں میں اور مردوں میں فرق رکھا ہے، جو داڑھی منڈاتا ہے وہ گویا اﷲ پر اعتراض کرتا ہے کہ یہ بال آپ نے بیکار پیدا کیے ہیں اس لیے میں ان بیکار بالوں کو روزانہ اُڑاتا رہتا ہوں ۔ دیکھو کبھی کسی نبی نے ڈاڑھی نہیں منڈائی، کسی اﷲ کے ولی نے ڈاڑھی نہیں منڈائی پھر تم اﷲ کے دوستوں کا راستہ چھوڑ کر کہاں جارہے ہو؟ اﷲ کے پیاروں کی شکل بناو پھر دیکھو اﷲ کا پیار۔
اﷲ کے پیاروں کی شکل بنانا اﷲ کے پیار کا ذریعہ ہے
حضرت حکیم الامت نے فرمایا کہ قنوج میں ایک وکیل صاحب جارہے تھے، ان کا نام محمد میاں تھا، ایک بڑھیا نے کہا ارے بیٹا سنو! گرمی کا مہینہ ہے،شربت پی لو، انہوں نے شربت پی لیا کہ اسّی سال کی نانی اماں ہے مگر پھر پوچھا کہ آپ نے مجھے شربت کیوں پلایا؟ میری آپ کی تو جان پہچان نہیں ہے، اس نے کہا کہ تیری ہی شکل کا میرا بیٹا ملا یا میں رہتا ہے، دو تین سال ہوگئے وہ آیا نہیں ، اس کی یاد میں دل تڑپتا رہتا ہے، تجھے دیکھ کر میری محبت جوش میں آگئی۔ تو معلوم ہوا کہ جب بیٹا پیارا ہے اور پیارے کی شکل والے کو اس بڑھیا نے شربت پلایا تو جو اﷲ کے پیاروں کی شکل میں رہیں گے ان پر بھی اﷲ کا پیار جو ش میں آئے گا لہٰذا اﷲ کے مغضوب اور نافرمانوں کی شکل مت اختیار کرو، ڈاڑھی منڈانا چوبیس گھنٹے کا گناہ ہے، نماز میںکھڑے ہو نافرمانی کی حالت میں ہو، سور ہے ہو نافرمانی کی حالت میں ہو اور ڈاڑھی رکھنے سے روزانہ کی مصیبت سے بھی چھوٹ جاو گے، روزانہ شیو کرنا، ایک کوٹ، ڈبل کوٹ اور آخر میں کھونٹی اُکھاڑ کوٹ۔ الحمد ﷲ! بہت سے لوگوں نے ڈاڑھی رکھ لی ہے، اگر کسی کو بھی ڈاڑھی رکھنے کے بعد ندامت ہوئی ہو تو بتاو، جنہوںنے ڈاڑھی رکھ لی آج وہ خوشیاں منارہے ہیں۔
حق تعالیٰ کی غیر محدود رحمت
گناہوں کی معافی مانگنے والا ایسا ہے جیسے اس سے خطا ہوئی ہی نہیں ۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں : اَلتَّائِبُ مِنَ الذَّنبِ کَمَن لاَّ ذَنبَ لَہ (سنن ابن ماجة، کتاب الزھد، باب ذکر التوبة، ص:۳۱۳)
جس نے معافی مانگ لی گویا اس نے گناہ کیا ہی نہیں، ایسے ہی جو ڈاڑھی رکھ لے اور تو بہ کر لے تو گویا اس نے کبھی ڈاڑھی منڈائی ہی نہیں۔ سبحان اﷲ! کتنا بڑا انعام ہے، کیا کریم مالک ہے۔ اگر کسی کے ایک کروڑ گناہ بھی ہیں وہ ایک دفعہ کہہ دے کہ یا اﷲ مجھے معاف کر دے اب آئندہ ایسی حرکت نہیںکروں گا تو اﷲ تعالیٰ سب معاف فرمادیتے ہیں، اﷲ کی رحمت کا سمندر عظیم الشان ہے۔ اگر کراچی کے سمندر پر ایک چڑیا آئے اور چونچ میں چند قطرے پانی لے لے تو سمندر میں کوئی کمی ہوگی؟ اسی طرح ہمارے گناہوں کو معاف کرنے پر اﷲ کی رحمت کا جو نزول ہوگا اس سے اﷲ کی رحمت کے سمندر میں اتنی کمی بھی نہیں ہوگی۔ اسی لیے سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے سکھایا: یَا مَن لاَّ تَضُرُّہُ الذُّنُوبُ وَلاَ تَنقُصُہُ المَغفِرَةُ فَھَب لِی مَالاَ یَنقُصُکَ وَاغفِرلِی مَا لاَ یَضُرُّکَ (شعب الایمان للبیھقی)
حضور صلی اﷲ علیہ وسلم بارگاہِ الٰہی میں عرض کرتے ہیں یَا مَن لاَّ تَضُرُّہُ الذُّنُوبُ ہمارے گناہوں سے اے خدا آپ کو کچھ نقصان نہیں پہنچا وَلاَ تَنقُصُہُ المَغفِرَةُ اور آپ اگر ہم کو بخش دیں تو آپ کے خزانہ بخشش اور مغفرت میں کوئی کمی نہیں ہوگی فَھَب لِی مَالاَ یَنقُصُکَ پس آپ ہمیں بخش دیجئے وہ چیز کہ جس کی آپ کے خزانے میںکمی نہیں وَاغفِرلِی مَالاَ یَضُرُّکَ اور ہمارے ان گناہوں کو معاف فرمادیجیے جو آپ کو کچھ نقصان نہیں پہنچاتے یعنی آپ کے خزانے میں جب کمی نہیں ہے تو ہم کو معاف کر دیجئے او رمعاف کرنا آپ کو محبوب بھی ہے۔
بخاری شریف کی حدیث ہے کہ جب اﷲ تعالیٰ سے کوئی بندہ معافی مانگتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس کو فوراً معاف فرمادیتے ہیں کیونکہ معاف کر نے کا عمل اﷲ کو محبوب ترین عمل ہے، معاف کر نے میں ہم لوگوں کو تو تکلیف ہوتی ہے اور ستانے والے کومعاف بھی کر دیتے ہیں کہ چلو معاف کیا مگر دل پر تو غم ہوتا ہے، لیکن اﷲ تعالیٰ کو کوئی غم نہیں ہوتا کیونکہ وہ تاثر سے پاک ہیں، اﷲ تعالیٰ معافی دے کر خوش ہوتے ہیں کیونکہ یہ ان کا محبوب عمل ہے جیسے کسی کو فاختہ کا شکار پسندہو، وہ جنگل گیا اور اس کے سامنے فاختہ آگئی تو بے ساختہ اس نے چھرّا مار دیا اور فاختہ بھی عجیب تھی کہ حواس باختہ ہو کر آسانی سے اس کے شکار میں آگئی، بھاگی بھی نہیں۔ بس سمجھ لو کہ اﷲ کی رحمت عظیم الشان ہے، کوئی معافی مانگ کر تو دیکھے کہ کتنا جلد معاف کردیتے ہیں۔ مولانا رومی فرماتے ہیں کہ جب کوئی گنہگار بندہ روتا ہے تو رحمت سے عرشِ الٰہی ہلنے لگتا ہے
عرش لرزد از انین المذنبین
گنہگاروں کے نالوں سے عرشِ الٰہی ہل جاتا ہے جب وہ رو رو کر اﷲ سے فریاد کرتے ہیں کہ اے اﷲ مجھے معاف کر دے، مجھ سے غلطیاں ہوگئیں، اگر آپ معاف نہیں کریں گے تو میں کہاں جاوں گا، میرا آپ کے سوا کوئی دوسرا خدا نہیں ہے، میں آپ کے حضور میں نالائق ہوں لیکن آپ کے سوا میرا کوئی اﷲ نہیں ہے تو عرشِ الٰہی رحمت سے ہلنے لگتا ہے جس طرح بچے کے رونے سے ماں کانپنے لگتی ہے۔ اس لیے کہتا ہوں کہ اﷲ والوں کی توبہ کو اپنی توبہ کے برابر مت سمجھو، ان کی توبہ سے فرشتے رونے لگتے ہیں۔
تو دوستو! جو سبق آج سنایا گیا میں سارے عالم میں یہی کہتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ سے محبت کرو، سارے عالم میں یہی پیغام ہے کہ اﷲ تعالیٰ سے محبت کرو مگر محبت کے دونوں حق ادا کرو، نیک عمل بھی کرو اور گناہوں سے بھی بچو، اپنے مالک کو ایک لمحہ کو بھی ناراض نہ کرو۔ اگر آپ کو کسی سے محبت ہے تو آپ اس کے دونوں حق ادا کریں گے یعنی آپ اپنے محبوب کو خوش بھی کریں گے اور اس کی ناراضگی سے بھی بچیں گے تو جو ظالم گناہ سے نہیں بچتا یہ اﷲ تعالیٰ کے محبت کے حقوق میں بے وفا ہے اور لفظ بے وفا اہلِ محبت کے نزدیک جرمِ عظیم ہے، اﷲ تعالیٰ ہم سب کو اپنا وفا داری عطا فرمائے، آمین۔
باطل فرقوں کا رد کلام اﷲ کا اعجاز ہے
اﷲ سبحانہ و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں الم۔ سارے عالم میں اس کے معنیٰ کوئی نہیں جانتا، تمام مفسرین لکھتے ہیں واﷲ اعلم بمراد ذالک اﷲ ہی کو اس کے معنیٰ معلوم ہیں۔ سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کے معنیٰ بیان نہیں فرمائے، ایسا کیوں ہوا؟ کیونکہ اﷲ کے علم میں تھا کہ بعض گمراہ قوم پیدا ہوگی جو قرآنِ پاک کے بارے میں یہ بکواس کرے گی کہ بغیر معنیٰ سمجھے ہوئے تلاوت بیکار ہے، ایسے لٹریچر نویسوں اور گمراہ طبقے کے لیے اﷲ نے جگہ جگہ ایسے الفاظ نازل فرمائے جس کے معنیٰ دنیا میں کوئی نہیں بتا سکتا یہاں تک آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے بھی ان کے معنیٰ نہیں بتائے لیکن بغیر سمجھے پڑھنے پر بھی الم کے تین حروف پر تیس نیکیاں مل جائیں گی، الف پر دس، لام پر دس اور میم پر دس ۔
یہ اصل میں ردِّ فِرَقِ باطلہ ہے ورنہ اﷲ کے لیے کیا مشکل تھا کہ اپنے نبی کو اس کے معنیٰ بتا دیتے چونکہ قرآن قیامت تک کے لیے ہدایت ہے لہٰذا علمِ الٰہی میں جتنے گمراہ فرقے ہیں ان کا رد اور بطلان بھی مقصود تھا۔ اس کی کئی مثالیں ہیں جیسے قرآن میں ایک جگہ ہے: اِنَّ اﷲَ تَوَّاب رَّحِیم (سورة الحجرات، آیت:۲۱)
اﷲ تعالیٰ بہت توبہ قبول کرنے والا ہے توّاب کے بعد رحیم نازل کیا کیونکہ ایک فرقہ گمراہ تھا جو یہ کہتا تھا کہ تو بہ کرنے کے بعد اﷲ تعالیٰ پر معاف کر نا ضابطے سے لازم ہے۔ اس کا اﷲ نے جواب دیا کہ میں ضابطہ اور قانون سے توبہ نہیں قبول کرتا، شانِ رحمت سے قبول کرتا ہوں۔ اس لیے علامہ آلوسی السید محمود بغدادی رحمة ا ﷲ علیہ تفسیر روح المعانی میں لکھتے ہیں کہ توّابکے بعد فوراً رحیم نازل کیا تاکہ اس فرقہ ضالّہ اور گمراہ کا جواب ہوجائے حالانکہ جب قرآن پاک نازل ہورہا تھا اُس وقت یہ فرقہ نہیں تھا مگر خدا کو تو علم ہے کہ کون کون سے فرقے پیدا ہوں گے اس لیے میرا کلام قیامت تک کے لیے نازل ہورہا ہے اس میں ہر گمراہ فرقہ کا علاج موجود ہے لہٰذا الم سے اس فرقہ کا علاج ہوگیا جو کہتا ہے کہ خالی قرآن رٹنے سے کیا ہوتا ہے، قرآنِ پاک سمجھ کر پڑھنے پر ہی نیکیاں ملیں گی، الم سے اس باطل عقیدہ کا رد ہوگیا کیونکہ الم کے معنیٰ کوئی نہیں جانتا لیکن جب کوئی تلاوت کرے گا تو از روئے حدیث اس کو تیس نیکیاں مل جائیں گی۔
حقانیتِ اسلام کی عظیم الشان دلیل
اﷲ سبحانہ و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: غُلِبَتِ الرُّومُ (سورة الروم، آیت:۲)
روم کے لوگ مغلوب ہوگئے۔ رومیوں پر ایرانیوں کے غالب آنے کا یہ واقعہ قرآنِ پاک، اسلام، اﷲ تعالیٰ اور رسول خدا صلی اﷲ علیہ وسلم کی صداقت و حقانیت کا عظیم الشان واقعہ ہے۔ اﷲ تعالیٰ خبر دے رہے ہیں غُلِبَتِ الرُّومُ اہلِ روم مغلوب ہوگئے، شکست کھا گئے اور اہلِ فارس جیت گئے۔ چونکہ اہلِ روم عیسائی تھے، صاحبِ کتاب تھے چنانچہ مکہ شریف کے مسلمان چاہتے تھے کہ اہلِ کتاب جیت جائیں، اگرچہ وہ بھی کافر تھے مگر مسلمانوں سے نسبتاً قریب تھے، ان کے پاس آسمانی کتاب انجیل تو تھی، مگر کافر چاہ رہے تھے کہ اہلِ فارس جیت جائیں کیونکہ وہ مشرک تھے، آگ کو پوجنے والے تھے۔ چنانچہ جب رومی شکست کھاگئے تو مشرکین نے خوشیاں منائیں اور مسلمانوں کو طعنہ دیا لیکن اﷲ تعالیٰ نے ان کے طعنے کا جواب عطا فرمایا کہ یہ شکست چند دن کے لیے ہے، جلد ہی میں رومیوں کو پھر غالب کردوں گا غُلِبَتِ الرُّومُ فِی اَدنَی الاَرضِ وَہُم مِنم بَعدِ غَلَبِہِم سَیَغلِبُونَ اہلِ روم مغلوب ہوگئے لیکن مغلوب ہونے کے بعد عنقریب پھر غالب آجائیں گے۔ اس آیت کی وجہ سے مشرکین نے کتنے دانت پیسے ہوںگے کہ کاش قرآنِ پاک کی یہ آیت سچی نہ ہو، رومی ہمیشہ مغلوب رہیں اور ان کو کبھی فتح نہ ہو، ساری دنیا کے کافروں نے ایڑی چوٹی کا زور لگادیا کہ قرآن پاک غلط ہوجائے لیکن اﷲ تعالیٰ کی رحمت اور قدرت کے سامنے قرآن پاک کو کون غلط کرسکتا تھا چنانچہ قرآنِ پاک کی صداقت ظاہر ہوئی اور پھر کچھ دن کے بعد رومیوں کو اﷲ نے فتح دے دی اور مشرکین دانت پیس کے رہ گئے۔ آگے اﷲ تعالیٰ فرمارہے ہیں: ِﷲِ الاَمرُ مِن قَبلُ وَمِنم بَعدُ
اﷲ ہی کی حکومت اور اختیار تھا اُس وقت بھی جب ان کو شکست ہوئی اور جب اُنہیں فتح دوں گا تو یہ بھی میری ہی حکومت اور اختیار سے ہوگا، پہلے بھی میرے ہی حکم سے وہ مغلوب ہوئے اور آئندہ میرے ہی حکم سے جیتیں گے۔ اس فتح اور شکست کا راز یہ تھا کہ اُ س زمانے میں فارس اور روم کفار کی دو بڑی طاقتیں تھیں، اﷲ تعالیٰ کو منظور ہوا کہ دونوں کافر آپس میں لڑ کر کمزور ہوجائیں اور میرے نبی کے لیے فتح مکہ کا راستہ ہموار ہوجائے، اﷲ تعالیٰ کے یہ سب تکوینی راز ہیں۔
تو جب یہ آیات نازل ہوئیں جن میں پیشین گوئی تھی کہ رومیوں کو اﷲ تعالیٰ فتح دے گا تو صدیقِ اکبر نے مارے خوشی کے مجامع الاسواق (بازار) میں جاکر جہاں لوگ بیٹھتے تھے اعلان کردیا کہ اے مشرکو اے کافرو! خوشیاں مت مناو، اﷲ تعالیٰ جلد اہلِ روم کو جو اہل کتاب ہیں پھر فتح دیں گے۔
حضرت صدیقِ اکبر کا یہ اعلان سن کر ابی ابن خلف جو مسلمانوں کا بہت ہی شدید دشمن تھا بولا کہ اے صدیق تم جھوٹ بولتے ہو، رومیوں کو ہرگزفتح نہیں ہوگی۔ آپ نے فرمایا کہ خدا کے دشمن تو ہی جھوٹا ہے، اگر تین سال کے اندر رومی غالب نہ ہوئے تو میں تم کو دس اونٹ دوں گا اور اگر میرے اﷲ کا اعلان صحیح ہواتو دس اونٹ تم کو دینا پڑیں گے۔ چونکہ اس وقت تک قمار یعنی جوا حرام نہیں ہوا تھا اس لیے صدیقِ اکبر نے یہ شرط لگائی۔ جب صدیق اکبر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس واپس آئے تو عرض کیا کہ میں نے ایک کافر کو یہ چیلنج کیا ہے۔ آپ نے فرمایاکہ میںنے تو تم سے یہ نہیں کہا تھا کہ تین سال کے اندر فتح ہوگی، اﷲ تعالیٰ نے فِی بِضعِ سِنِینَ نازل فرمایا ہے، بِضعِ تین سال سے نو سال کا زمانہ کہلاتا ہے لہٰذا دوبارہ جاو اور اس سے کہو کہ میں دس اونٹوں کے بجائے سو کی شرط لگاتا ہوں اور مدت تین سال کی بجائے نو سال مقرر کرتا ہوں کہ نو سال کے عرصہ میں رومیوں کو فتح حاصل ہوجائے گی۔ اگر نوسال کے اندر اندر رومیوں کو فتح نہ ہوئی تو ابو بکر تم کو سو اونٹ دے گا اور اگر اس عرصہ میں رومی غالب ہوگئے تو تم کو سو اونٹ دینا پڑیں گے۔ ابی ابن خلف اس معاہدہ پر راضی ہوگیا۔
کچھ عرصہ بعد جب ہجرت کا حکم ہوا تو ابی ابن خلف کافر نے حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ سے کہا کہ اگر تم مدینہ چلے گئے اور تمہارا قول غلط ہوگیا اور تمہارے اﷲ کاکلام صحیح نہ ہوا تو سو اونٹ کون دے گا؟ آپ نے کہا کہ میرا بیٹا عبد الرحمن دے گا، اس کے بعد ابی ابن خلف نے بھی اپنے بیٹے کو کفیل بنا لیا کہ اگر میں مر گیا تو میرا بیٹا سو اونٹ دے گا۔ اﷲ کی شان کہ نو سال پورے نہیں ہوئے تھے کہ ساتویں برس اﷲ نے رومیوں کو فتح دے دی جبکہ ساری دنیائے کفر دانت پیس رہی تھی اور سر توڑ کوشش کررہی تھی کہ یہ جنگ میں کبھی نہ جیتیں تا کہ اسلام کا چراغ بجھ جائے لیکن حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا چراغ اﷲ کا چراغ ہے۔اﷲ نے ساتویں سال رومیوں کو فتح دے دی۔
بتاو! ساری دنیائے کفر کیوں نہ اپنے گھوڑوں اور تلواروں سے ایرانیوں کی مدد کو پہنچی تاکہ رومیوں کو نہ جیتنے دیتی اور قرآن پاک کا دعویٰ غلط کردکھاتی لیکن قیامت تک کسی میں یہ طاقت نہیں جو اﷲ کے حکم کو نافذ ہونے سے روک سکے۔ اﷲ کے کلام کی زبردست صداقت ہمارے ایمان ویقین کا ذریعہ ہے۔ جب اﷲ تعالیٰ نے رومیوں کو جتا دیا تو اس وقت ابی ابن خلف مرچکا تھا۔ صدیقِ اکبر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے شرط کے مطابق اس کے لڑکے سے سواونٹ وصول کرلیے اور حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں اونٹ لے کر حاضر ہوئے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان اونٹوں کو صدقہ کردو۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ اگرچہ اس وقت جوا کی حرمت کی آیت نازل نہیں ہوئی تھی لیکن جو چیز آئندہ حرام ہونے والی تھی وہ بھی صدیقِ اکبر کی شان کے مناسب نہیں تھی اور قمار(جوا) کی حرمت سے قبل بھی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے کبھی قمار کو پسند نہیں فرمایا۔ جس طرح شراب سابقہ زمانے میں حلال تھی لیکن حضور صلی اﷲ علیہ وسلم اور صدیقِ اکبر رضی اﷲ عنہ نے اُس زمانے میں بھی جبکہ شراب حرام نہیں تھی کبھی شراب نہیں پی۔ آہ
حسن کا انتظام ہوتا ہے
عشق کا یوں ہی نام ہوتا ہے
آج یہ واقعہ میں نے اس لیے بیان کیاکہ یہ سورة مسلمانوں کے ایمان و یقین بڑھانے کا زبردست ذریعہ ہے۔ آپ دیکھیں کہ حضرت صدیقِ اکبر کو کلام اﷲ کی صداقت اور اسلام کی حقانیت پر کیسا یقین تھا کہ شرط بھی لگا دی کہ ضرور تین سال سے لے کر نو سال کے عرصے میں رومی جیتیں گے، قرآن کیسے غلط ہوجائے گا۔
تو دوستو! اس زمانے میں اسی چیز کی فکر کرلو کہ جو عمرہ کرنے جانے والے ہیں اگر مکہ شریف میں کوئی عورت سامنے اچانک نظر آجائے تو فوراً نظر نیچی کر کے کہو کہ یااﷲ مکہ شریف میں، تیرے شہر میں، یہ عورت تیری مہمان ہے لہٰذا یہ میری ماں سے زیادہ معزز ہے، اپنے نفس سے کہو کہ مکہ جانے والی خواتین جو حج و عمرہ کرنے جاتی ہیں میری ماں سے زیادہ محترم ہیں، خدا محترم ہے لہٰذ اس کا مہمان بھی محترم ہے خواہ عورت ہو یا مرد ہو۔ اور مطاف کے قریب نہ بیٹھو کیونکہ طواف میں لڑکیاں بھی ہوتی ہیں اور مرد بھی لہٰذا مطاف سے تھوڑا فاصلے سے بیٹھو تا کہ نظر کے زاوئیے میں کوئی حسن آئے ہی نہیں، قریب بیٹھنے میں اندیشہ ہے کہ نظر اِدھر اُدھر پڑجائے اور حرام کی مرتکب ہوجائے۔ اور جب مدینے شریف جاو تو وہاں بھی کوئی عورت سامنے آئے مصر کی، انڈونیشیا کی، اُردن کی کوئی گذر جائے تو فوراً نظر بچا کر یہی کہو کہ اے اﷲیہ مدینے پاک کی مہمان ہے، اس کو ڈبل عزت حاصل ہے کہ اے اﷲیہ تیری بھی مہمان ہے اور تیرے رسول کی بھی مہمان ہے کیونکہ مدینہ شریف اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کا شہر ہے۔ بس پھر دیکھو کیسا عمرہ ادا ہوتا ہے اور کیسا نور عطا ہوتا ہے، حلاوتِ ایمانی سے دل بھر جائے گا ان شاءاﷲ تعالیٰ۔
جن لوگوں کے دل میں جو حاجت ہے سب لوگ نیت کرلو ہم سب کے دل میں جتنی بھی نیک مرادیں ہیں اﷲ اپنی رحمت سے سب پورا فرما دے اور جس کو جو پریشانی، جو غم ہے خواہ روحانی بیماری ہو یا جسمانی اﷲ تعالیٰ سب کو شفاءدے د ے، جسمانی بیماری کو بھی شفاءدے دے اور روحانی بیماری کو بھی شفاءدے دے۔ جس کو غیر اﷲ کے عشق ومحبت کا مرض ہے خدائے تعالیٰ ہمارے قلب کو اس غیر اﷲ کے کینسر سے پاک فرماد ے۔ ان حسینوں کے عارضی ڈسٹمپر بول و براز اور گندگی سے بھرے ہوئے ہیں۔ دوستو! اپنی بیوی کے علاوہ کسی کو نظر اٹھا کر مت دیکھو پھر دیکھو دل میں اﷲ کیسا چین دیتا ہے مالک پر مر کر تو دیکھو، وہ ارحم الراحمین ہے
نیم جاں بستاند و صد جاں دہد
آنچہ در وہمت نیاید آں دہد
اﷲ مجاہدے میں آدھی جان لے کر سو جان دیتا ہے۔ یہ کہنے والا جلال الدین رومی ہے، صاحبِ قونیہ شاہ خوارزم کا نواسہ ساڑھے اٹھائیس ہزار اشعار کہنے والا۔ قونیہ کے جس جنگل میں مولانا رومی کے ساڑھے اٹھائیس ہزار اشعار ہوئے اﷲ پر آدھی جان دے دو اﷲ سو جان عطا کرے گا اور آدھی جان جو بچی ہے وہ الگ رہی تو آدھی جان جو گئی اس کے بدلے میں سو جان پاگئے اور آدھی جان پلس (Plus) میں رہی، لہٰذا نفع ہی نفع میں رہو گے اور اﷲ کو جان دینے کا زمانہ کب ہے؟ کیا مرنے کے بعد جان دو گے؟ مرنے کے بعد جان دینے کی فیلڈ چِھن جائے گی لہٰذا اس کریم مالک پر ابھی اسی زندگی میں اپنی جان فدا کر دو۔ یااﷲ ہمیں جسمانی روحانی شفا دے دے، دونوں جہاں کی نعمتیں ہم فقیروں کو بخشش کردے، آمین۔
وَاٰخِرُ دَعوَانَا اَنِ الحَمدُ ِﷲِ رَبِّ العٰلَمِینَ۔
وَصَلَّی اﷲُ عَلَی النَّبِیِّ الکَرِیمِ۔

No comments:

Post a Comment